• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فروری کے آغاز سے ہی عدلیہ، انتظامیہ اوربانیٔ تحریک پر تیز دھاروالی چھری چلتی رہی اور فیصلے محفوظ اور غیر محفوظ ہوگئے۔ ایک فیصلے پر مولویوں اور ’ویف‘ والیوں کو بھی تابڑ توڑ حملے کا موقع مل گیا۔ اس عالم میں اور اس ماحول میں، ’’قصہ پون صدی‘‘ کا پڑھتے ہوئے، عدالتوں اور مقدموں کی تفاصیل کو پس پشت ڈالتے ہوئے میرے سامنے تسنیم منٹو پیر جما کر کھڑی ہوگئی ۔ میری یادداشت میں تسنیم، زندگی کی بہت سی منزلیں طے کرنے والی ،کبھی کبھی کہانیاں لکھنے والی اور اظہر جاوید کی کسی شام کی ادبی نشست میں، تسنیم اپنی جھلک بھی دکھا دیتی تھیں۔ کہانیاں لکھنا، اپنے لئے لازمی نہیں سمجھا تھا۔ دل کیا تو لکھ لی۔ میری اس تسنیم سے گاہےگاہے ملاقات ہوتی رہی مگر وہ تسنیم جس نے جیلیں بھی کاٹیں، گھر میں بھی محبوس رہی، رہائی کے وقت اپنے ساتھ رہا ہونے والیوں پر واجب رقم بھی ادا کرتی رہی اور کبھی اپنی اس زندگی کو سیاست دانوں کی طرح موقع بے موقع نہ دہراتی رہی، بلکہ ایک خاموش گھریلو خاتون کی طرح بیٹیوں کو زمانے سے لڑنا، پڑھنا اور اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا سکھا رہی تھی کہ بلال میاں نے بھی اس گھر میں اپنا وجود بلند کرنا شروع کیا اور منٹو صاحب نے سمجھ لیا کہ گھر پر آرڈر تو تسنیم کا چلے گا۔ اس لئے وکالت کرتے ہوئے، جب پہلی رقم آئی تو وہ سیدھی بینک میں تسنیم نے رکھوائی اور گھر خریدنے، بنانے کے جنون کی آبیاری سنجیدگی سے کرتے ہوئے سبھی عام عورتوں کی طرح اپنے سر پر چھت کے تصور کو عملی شکل دکھانے لگی۔

ابھی میں نے آپ کی ملاقات اصلی تسنیم سے نہیں کروائی۔ یہ وہ تسنیم تھی جو طاہرہ مظہرعلی کیساتھ انجمن جمہوریت پسند خواتین کے گروپ میں شامل رہی اور غریب عورتوںکی ذہنی اور معاشی بہبود کیلئے کام کرتے ہوئے کبھی ایک ہفتہ جیل میں اور دو ماہ کیلئے گھر میں نظر بندی میں منٹو صاحب کی ہمدم و ہم راز رہی۔ باقاعدہ گرفتاریاں سول سوسائٹی کے لوگوں اور وکلا کی وہ جدوجہد شروع ہوئی جس میں معافی نامے پر دستخط کرکے رہا ہونے والے بھی شامل تھے۔ مگر منٹو صاحب کی عدالتی جدوجہد کی تمام تر تفاصیل، اس کتاب میں شامل ہیں ، لگتا ہے جیسا کہ ججز فیصلہ لکھواتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کی طرح کسی قسم کے دخل کو قابل معافی نہیں سمجھتے۔ بھارت میں گرفتاری اور مقدموں کی تفاصیل ایسی جامعیت کے ساتھ موجود ہیں کہ جب میں نے بلال سے پوچھا بتائو کیا منٹو صاحب بول کر یہ تفاصیل کسی سے لکھواتے رہے ہیں۔ بلال کے جواب میں وہ اجنبیت تھی کہ آپ خود پوچھ لیں۔ ساری عمر لکھتے ہوئے گزار کر، جب منٹو صاحب کی مقدمات کی تفاصیل کو دیکھا، ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ پڑھا تو ان کی ذہنی سنجیدگی سند بن گئی۔ مزاج کی شگفتگی ان پیرا گراف میں نظر آتی ہے، جہاں وہ جیل میں گزارے شب و روز، کبھی فیصل آباد میں، کبھی بہاولپور جیل میں ساتھی وکلا میں میجر اسحٰق، معراج محمد خان، اقبال حیدر اور ہم سب کے محترم محمود قصوری، اعتزاز احسن اور رضا کاظم بھی شامل تھے۔ ان میں سے چند اور انکے علاوہ معافی نامے پر دستخط کرانے والے بھی تھےجن کے نام نہیں لکھ رہی ہوں۔ منٹو صاحب نے ان صاحب لوگوں کے نام بھی نہیں لکھےجن کے مقدمات بغیر فیس لئے لڑے تھے۔ ان میں فوجیوں کے ہاتھوں احمد فراز کی حبس بے جا سے رہائی، مزدوروں اور خواتین کے خلاف مقدمات جس میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیم قائم کرنے اور وکیلوں کی یونین کی صدارت میں آجروں کے مقابلے میں کسانوں کی حمایت کے مقدمات لڑتےہوئے نہ کبھی بیٹیوں نے نہ تسنیم اور نہ بلال بیٹے نے کبھی مخالفت کی بلکہ حوصلہ افزائی کی۔

پریذیڈنٹ وکلا یونین کے حوالے سے اور دیگر قانونی عدالتی کانفرنسوں میں ملکوں ملکوں گھومنے اور تسنیم کے ساتھ اکثر و بیشتر کا احوال لکھتے ہوئے منٹو صاحب کو یاد ہے کہ بارسلونا کیسا تھا، کیپ ٹائون، ہوانا، سری لنکا میں کینڈی کی سماجی ترقی کے علاوہ عوامی سطح پر مساوی ترقی کے ماحول سے متاثر ہوئے۔ شخصیات میں ملاقات کو یاد کریں تو نیلسن منڈیلا ،کاسترو تو عالمی شخصیات تھیں مگر دیگر اہم شخصیات میں پروفیسر احتشام، آلِ احمد سرور اور سب سے یادگار ملاقات تھی اس شخصیت سے جو پرنسپل کے کمرے میں، ایک کرسی پر ٹانگیں رکھے ہوئے بیٹھا تھا۔ یہ کون تھا، جب میں نے پڑھا تو مجھے اپنی ملاقات بھی یاد آئی یہ ہمارے منٹو صاحب، عظیم افسانہ نگار، یہ دراصل اس نوجوان سے ملنا چاہتے تھے جو اپنے نام کے ساتھ منٹو لکھتا تھا۔ بقول ان کے ذہین نوجوان تھا۔

سارک ممالک جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس کی سیاسی کانفرنس بینظیر دور میں کہ راجیو گاندھی بطور وزیراعظم شریک تھے۔ ان سارے سارک ممالک میں عدلیہ ا ور ادبی کانفرنسوں کا بہت شور تھا۔ انڈیا میں اجیت کو راور پاکستان میں رحمان صاحب اور ڈاکٹر مبشر کے ساتھ ہم لوگ شامل تھے۔ ہر سال دو تین سو لوگ ایک دفعہ انڈیا اور ایک دفعہ پاکستان دوستی کی زنجیر ملاتے جاتے، اسی طرح وکلا کی تنظیم میں منٹو صاحب، اعتزاز احسن اور سیدا فضل حیدر بہت نمایاں رہے۔ بہرحال دونوں ملکوں کے علاوہ باقی سارک ممالک کے ممبران کو 5سال کا ویزا بھی دیا جانے لگا۔ بُرے دن پاکستان کے مقدر میں مشرف کی شکل میں اور انڈیا میں مودی شکل میں ایسے زہرناک ابھرے کہ اب کوئی سارک کا نام ایسے ہی نہیں جانتا، جیسے آج کی نسل سے جب پوچھو کہ بنگلہ دیش کا پہلے کیا نام تھا، تو پروفیسر حضرات کو بھی نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش بنے 50برس ہوچکے ہیں۔

ویسے تو بہت اہم مقدمات کی تفصیلات کتاب میں درج ہیں جن کو مختصر کرکے بیان نہیں کیا جاسکتا تھا۔ البتہ1971ء میں گنگا جہاز کے اغوا کا کیس اور پھر بھٹو صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد، صوبوں کی حکومتوں کے ساتھ سلوک قابلِ ذکر اور قابل مذمت رہا۔ اس طرح 12فروری 1983ء کا دن جب قانون شہادت میں عورتوں کو مساوی قرار نہیں دیا گیا۔ پاکستان کیا دنیا کی تاریخ میں حوالہ بن گیا جس میں حبیب جالب کو بخار کے باوجود پکڑ لائی تھی اور پھر خواتین اور جالب صاحب کے ساتھ جو سلوک ہواوہ سارا قصہ، میری نظم ’’ہم گنہگار عورتیں‘‘ ساری دنیا میں ترجمے کے ذریعے بیان ہوگیا ہے۔

یہاں میں پھر کہوں گی کہ تسنیم کی سیاسی سرگرمیاں، میرے اندر تازہ ہوگئی ہیں اور منٹو صاحب کی یادداشت نے کمال تفصیلات کے ساتھ بعنوان کچھ مشہور اور اہم مقدمات کے نام سے پڑھنے کا لطف لیا ہے۔ اب پھر بلال سے پوچھوں’’ یہ کتاب یادوں کی بنیاد پر لکھوائی گئی کہ بقلم خودجو بھی ہے ہم سب مارشل لاہی میں زندہ رہے۔ احتجاج بھی کرتے رہے۔

تازہ ترین