میمونہ حنیف
حوصلہ افزائی خوابیدہ اور ذہنی صلاحیتیں کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرتی ہے۔ دُنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے اپنی تعریف سن کر خوشی نہ ہوتی ہو۔ ہر انسان سراہا جانا پسند کرتا ہے۔ جن کاموں کی ستائش کی جاتی ہے، اس میں کام کرنےوالے کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔ وہ بہتر کارکردگی انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ہر عمر میں ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے، جو کام پہ اکساتی ہے، توانائی بخشتی ہے، دل میں لگن پیدا ہوتی ہے۔
نوجوانوں کی کامیابی کےلئےتو یہ بے حد ضروری ہے، تاکہ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ پروان چڑھے، اعتماد میں اضافہ اور حوصلے بلند ہوں، پوشیدہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ یہ بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو اپنے سے قریب کریں، ان کی باتیں سنیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں، ان سے ہمیشہ کہیں ’’مَیں آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔ یہ جملہ انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے گا۔
ایک پیار بھری حوصلہ افزائی کی تھپکی ان کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اُنہیں یہ احساس دلانا ضروری ہوتا ہے کہ کوئی ہے اُن کے پیچھے جو اُنہیں آگے بڑھتا اور کامیاب ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ آج ہمارے درمیان کتنے ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پیچھے اس طرح حوصلہ افزائی کی ترغیب دینے والے لوگ موجود تھے،جو رکاوٹوں پر قابو پانے، چیلنجوں کے ذریعے ثابت قدم رہنے اور کامیابی کے لیے جدوجہد کرنے میں مدد کرتےتھے۔ جب وہ ہمت ہارنے لگتے تو یہ الفاظ’’ہاں تم کر سکتے ہو!‘‘ ان کو پھر سے کھڑا کردیتے تھے۔ حوصلہ افزائی مختلف ذرائع سے آ سکتی ہے۔
سیکھنے، نئی مہارتیں اور خود کو بہتر بنانے کی خواہش ایک مضبوط محرک ہوسکتی ہے، ذاتی ترقی کا حصول ترقی اور کامیابی کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ مثبت آراء، دوسروں کی حمایت، تعلق، اعتماد اور جوابدہی کے احساس کو فروغ دے کر حوصلہ بڑھا سکتی ہے۔ چیلنجوں کے ذریعے ثابت قدم رکھنے کا حوصلہ دینا، یہ یقین دلانا کہ کوشش اور استقامت حتمی کامیابی کا باعث بنے گی ایک طاقتور محرک ہو سکتا ہے۔
والدین یا بزرگوں کے سامنے جب بچے اپنے مستقبل کے بارے میں تبادلہ کرتے ہیں توان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کریں، کیونکہ اسی سے اُڑان بھرنے کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔یہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسی طرح ضروری ہے، جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول۔ حوصلہ افزا دو بول انسان کو وہ کچھ حاصل کرنے کی طاقت دیتے ہیں جس کے بارے میں سوچا تک نہیں ہوتا۔ یہ جوش و خروش کا کرنٹ لگادیتے ہیں۔ بعض لوگ کسی کی تعریف کرنے، اس کی بہترین کارکردگی پر سراہنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حسد بھی ہوسکتی ہے، ’کوئی ہم سے آگے کیوں نکل گیا،‘ یہ بات ان سے ہضم نہیں ہوتی۔ ایسے رویے سےگریز کرنا چاہیے۔
مشہور امریکی مزاح نگار مارک ٹوئین نے ایک بار کہا تھا کہ،’’ وہ سچی تعریف کے چند لفظوں پر زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘صحیح وقت پر محبت اور خلوص کے ساتھ ادا کیے جانے والے دو بول بھی روح میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ والدین بچوں کو کامیاب دیکھنا تو چاہتے ہیں، مگر جانے انجانے میں ان کے بہت سے جملےبچوں کے حوصلے کم کردیتے ہیں ،ان کا اپنے آپ سے، اپنی صلاحیتوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ احتساب کے لیے کچہری لگانا، بہن بھائیوں کے سامنے بے عزت کرنے سے ان کی ترقی رُک جاتی ہے، وہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ بچے خوب پھلتے پھولتے ہیں ، جن کے والدین انہیں حوصلہ دیتے ہمت بڑھاتے ہیں۔ یہ تربیت کا بہترین اور مؤثرترین ذریعہ ہے، جو اچھا بننے کی ترغیب دلاتا ہے۔
کسی کونا اہل کہہ کر میدان سے ہٹا دینا ٹھیک نہیں اور یہ مسئلے کا حل بھی نہیں ہے۔ اُس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ ایک حوصلہ افزا جملہ آپ کو زیرو سے ہیرو بناسکتا ہے۔ ’’شاباش تم کرسکتے ہو‘‘، ’’تم میں صلاحیت موجود ہے‘‘، ’’تم کسی سے کم نہیں‘‘، ’’تمھارے لیے کچھ مشکل نہیں‘‘، ’’کوشش جاری رکھو‘‘، ’’جدوجہد ترک مت کرو‘‘، ’’تم ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرسکتے ہو‘‘، ’’ڈٹ جاؤ‘‘، ’’تمھاری محنت رائیگاں نہیں جائے گی‘‘، ’’اللہ پر بھروسہ رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ’’بڑھتے چلے جاؤ،‘‘ اس قسم کے جملے نوید سحر ثابت ہوسکتے ہیں اور کارکردگی، کوشش اور لگن کی رفتار کو حیرت انگیز طور پر بڑھا دیتے ہیں
نوجوانو! آپ بھی اپنی زندگی میں ایسے دوست بنائیں اور ایسے لوگوں کا قرب حاصل کریں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔ آپ خود پر بھی اعتماد کریں، کیونکہ خود اعتمادی ہی آپ کو کامیابی کی طرف گا مزن کر سکتی ہے۔ اپنے اوپر سے ناکامی کے ڈر کی چادر اتار پھینکیں، ورنہ آپ کی مثال اس پرندے جیسے ہو گی جو اڑنے کی اہلیت ہوتے ہوئے بھی گرنے کے ڈر سے کبھی اڑ نہیں پاتا۔