آج کل پڑھے لکھے نوجوانوں سے پوچھیں جو ماسٹرز یا ایم فل یا پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں وہ کیا کرنا چاہتے ہیں او ران کے سامنے کیا اہداف ہیں ، تو جواب بڑا مایوس کن ملتا ہے ۔زیادہ تر نوجوان حادثاتی طور پر آگے بڑھنے کے قائل ہیں یعنی جہاں قسمت ان کو لے جائے گی وہ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اپنے ذہن میں والدین یا استاد سمیت کوئی ایسا خاکہ نہیں تیار کیا جو ان کو باور کرواسکے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے او رجو کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ان کو کیا کرنا چاہیے یا اس کی حکمت عملی کیا ہوگی ؟ان سے بس یہ کہنا ہے کہ انسان کی پہچان اس کی اپنی شخصیت ہوتی ہےکوئی بھی نوجوان یا فرد اپنی انتھک محنت، لگن، جستجو سے آگے بڑھتا ہے۔ تعلیمی میدان میں اپنی اہلیت اور صلاحیت سےآگے بڑھتا ہے۔
یاد رکھیں! اونچے خواب، واضح مقاصد، مضبوط حوصلہ اور مسلسل جدوجہد ہی وہ عوامل ہیں،جو ایک بہتر سے بہترین انسان بننے میں مدد دیتے ہیں، لہذا مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ بہادری کے ساتھ کریں۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر لوگوں کے لیے مفید اور دنیا میں تبدیلی کا باعث بنیں۔ کسی بھی کام کو کامیابی کے ساتھ کرنے کے لیے پْر اعتماد ہونا اہم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی اصلاح خود کریں۔ اپنی ذات سے اپنے دوست احباب اور دیگر افراد کو فائدہ پہنچائیں۔ احساس کمتری، منفی خیالات سے نجات پائیں۔ کوئی اس معاملے میں آپ کی مدد نہیں کرے گا۔
اگر آپ وہی کچھ کریں گے جو اب تک کرتے آئے ہیں، تو آپ کو وہی کچھ ملے گا جو اب تک ملتا آیا ہے۔ دوسروں کو تبدیل کرنادوسروں کو بہتر سے بہترین بنانا، آپ کے اختیار میں نہیں لیکن خود کو بدلنا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ لوگ اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں، لیکن سوچ بدلنے کےلئے تیار نہیں، اس لیے اُن کی زندگی مشکلات میں گھری رہتی ہے۔ بے شک آپ کے حالات آپ کا انتخاب نہیں لیکن اپنے خیالات کو خوب صورت ضرور بناسکتے ہیں۔
ان کو بدلیں گے تو حالات بھی بدل سکتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ کامیابی محنت سے نہیں قسمت سے ملتی ہے تو آپ محنت کےلئے کبھی تیار نہیں ہوں گے، قسمت کا انتظار کرتے ہوئے عمر گنوا دیں گے اور یہ ایک یقین آپ کو ناکام کر دے گا۔ بے شمارنوجوان اپنی ناکامیوں کی وجہ حالات اور قسمت کو قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک ناکامی کی وجہ پاکستان میں وسائل کی عدم دستیابی ہے۔ لیکن اصل وجہ اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری بھی ہے۔
شکوہ شکایت کو اپنی عادت نہ بنائیں بلکہ محنت اور ذمہ داری کو زندگی کا حصہ بنائیں۔اپنی خامیوں اور محرومیوں کو بھول کر اپنی صلاحیتیں نکھارنے پر توجہ دیں اب وقت آگیا ہےکہ آپ کو شعوری طور پر مضبوط ہونا پڑے گا ، علم کی قدر و قیمت اس کی علمیت و عظمت کو سمجھنا ہوگا ۔ بیمار اور پریشان کن خیالات سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجئے، کہ ناکامیوں کا سب سے بڑا سبب منفی خیالات ہیں۔
اگر مستقل شکوہ گو رہیں گے، تو زندگی میں مزید ایسے واقعات رونما ہوں گے، جن پر آپ کو مزید رنجیدہ ہونا پڑے گا۔ بزرگوں، والدین، اساتذہ کی عزت و احترام کریں ان کی باتوں اور مشوروں کو غور سے سنیں، اگر آپ کو ان میں سچائی کی خوشبو آئے تو ان پر خود بھی عمل کریں اور اپنے احباب کو بھی راغب کریں۔ جو مل گیا ہے اس کے لیے شکر ادا کریں اور جو نہیں ملا، اس کے لیے جدو جہد کریں۔ کیونکہ محنت سے سب کچھ ممکن ہے۔اسی لئے کسی نے خوب کہا ہے:
بدلی جاتی ہے، بدلتی نہیں تقدیر کبھی
اپنے ظاہر کو امید کی شمع سے روشن کریں اور باطن میں ناامیدی اور مایوسی کے دیے بجھا دیں۔ پست ہمتی سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جد وجہد کرنے والے انسانوں کے استقبال کے لیے تو خود منزل بے تاب ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہےکہ، جو مسائل ہیں ان کا حل نکالیں ، ایسے فورم، ٹاک شوز اور اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ایسے سمینار وغیرہ منعقد کریں ،جہاں علمی ماہرین ومفکرین اور دیگر ،مکتب فکر کے ساتھ مل کر پہلووں کو اجاگر کیا جائے جو نوجوان نسل کے روشن مستقبل کے ضامن ہوں۔ اپنی اخلاقی قدروں اور تہذیب سے ایک دوسرے سے اچھے پیغامات اور طرز عمل کا مظاہرہ کریں۔
ہم دنیا کے علمی کارواں سے بہت پیچھے ہیں، علمی ہستیوں اور علمی استعداد کو نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے۔ علم و دانش کے اعتبار سے ہم دنیا کے سب سے پسماندہ ممالک میں شامل ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے،اس خامی یا کمی کو آپ نے ہی دور کرنا ہے۔ اپنی تمام تر توانائیوں کو ملکی پیشرفت کے لئے وقف کریں۔ آپ سب سرسبز و شاداب پودوں کی مانند ہیں۔ پھل دینے والے شجرمیں تبدیل ہوں اور ملک کو اپنے وجود سے فائدہ پہنچائیں۔