کراچی ( اسٹاف رپورٹر )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف ادیب، دانشور، صحافی محمود شام کی خود نوشت ”شام بخیر“ کی تقریب رونمائی حسینہ معین ہال میں منعقد کی گئی جس کی صدارت ڈاکٹر امجد ثاقب نے کی جبکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ،محمود شام، ڈاکٹر سید جعفر احمد،سید سرمد علی، محمد سلیم، آفتاب میمن، مہناز حسن زیدی اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے ترن وجے (دہلی )، پروفیسر اختر الواسع (دہلی) اور ڈاکٹر عنبر عابد (دہلی) نے اظہارِ خیال کیا ، تقریب کی نظامت شکیل خان نے کی جبکہ 12 سالہ عروش فاطمہ نے محمود شام کی کتاب ”شام بخیر“ سے اقتباس پڑھ کر سنایا۔ تقریب سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ محمود شام کی خود نوشت ”شام بخیر“ پاکستان نامہ بھی ہے، کیونکہ پاکستان جب سے آزاد ہوا تب سے اس ملک کو دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے صدارتی خطبہ میں کہاکہ عشق ہماری نسوں میں ہے اس کے بغیر ہم نہیں رہ سکتے، یہ عشق کا ہی کرشمہ ہے،لفظ شاعری توانائی ہے یہ اس عشق کا حصہ ہے، محمود شام سے اگر پہلے ملتا تو ان کے درگزر کرنے کی عادت اور قلم سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا۔ محمود شام ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ ساتھ شاعر، ادیب اور صحافی بھی ہیں یہ کتاب عہدِ حاضر کے نوجوانوں کے لئے لکھی گئی ہے، جس کے ہر لفظ سے لگتا ہے کہ اس کے آگے ایک اور کہانی شروع ہونے والی ہے، ترن وجے( دہلی) نے ویڈیو پیغام میں کہاکہ محمود شام کے قلم کی طاقت ساری دنیا میں خوشبو پھیلاتی ہے وہ لوگ جن کی آواز کوئی نہیں سنتا، ان کی آواز محمود شام کی شاعری اور نظموں میں ہے، ہم آپ کو ہندوستان آنے کی دعوت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں یہ کتاب ایوارڈ کا حصہ بنے، ڈاکٹر اختر الواسع ( دہلی) نے ویڈیو پیغام میں کہاکہ محمود شام اردو بولنے والوں میں ایک نمایاں نام ہے، ڈاکٹر جعفر احمد نے محمود شام کی کتاب شام بخیر پر مضمون پڑھا کر سنایا۔ تقریب کے آخر میں صاحب کتاب محمود شام نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ دو تین گھروں کے علاوہ وزیراعظم کہی اُگتے ہی نہیں ، ماں جیسی ریاست سے یہ جوانی سنبھالی نہیں جا رہی، سوشل میڈیا، آڈیو ویڈیو لیک اور بے نواوں کے ہتھے چڑھ گیاہے اور کہیں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے ہمارے لوگوں کی آواز دبائی جا رہی ہے، پاکستانی معاشرہ حکمرانوں سے آگے نکل گیا ہے۔