• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اعظم رضا

ایک مرتبہ ہند و صحافی نے لارڈماونٹ بیٹن سے سوال کیا کہ آپ کو پسندیدہ شخصیت کون ہے؟ اس نے کہا ’’ مسلمانوں کا جناح، کیونکہ وہ منافق نہیں ہے‘‘۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل کی حیثیت سے ملک کا انتظام چلا رہے تھے۔

ایک مرتبہ قائد اعظم کے ملازم نے وزیٹنگ کارڈ آپ کے سامنے ر کھا اور کہا، صاحب یہ شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے‘‘۔ اس کارڈ پر ان کے بھائی کا نام لکھا تھا اور ساتھ میں تعارف میں لکھا تھا ’’برادر آف محمد علی جناح‘‘ یہ پڑھتے ہی قائد اعظم نے کارڈ پھاڑ کر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’اس کو کہہ دو کہ اس طرح کبھی میرے نام کا حوالہ استعمال نہ کرے‘‘۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ قائد اعظم کے دفتر کا فرنیچر آرڈر کیا گیا جو کے سینتیس روپے کا تھا۔ 

آپ کو خزانے سے ادائیگی کے لئے دستخط کرنے کے لئے بل پیش کیا گیا۔ آپ نے بل دیکھا تو پوچھا ’’اس میں یہ سات روپے کی فالتو کرسی کیوں آرڈر کی ہے‘‘۔ سیکرٹری نے کہا، صاحب یہ فاطمہ جناح صاحبہ کے لئے ہے دفتر میں ان کے بیٹھنے کے لئے منگوائی ہے‘‘۔ قائد اعظم نے سات روپے کاٹ کر تیس روپے کا بل منظور کرتے ہوئے کہا، ’’کرسی کے سات روپے فاطمہ سے جا کر وصول کرو، قومی خزانہ سے نہیں دیا جائے گا‘‘۔

نوجوانو! ان واقعات سے سبق ملتے ہیں۔ پہلے واقعہ میں دیکھیں سبق کیا ہے مومن کسی غیر کے آگے نہیں جھکتا شان استغنا اسے کہتے ہیں۔ اپنی قدر کروانا اسے کہتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے واقعہ میں سبق ملتا ہے کہ اپنا نام خود پیدا کرو، سہارے مت تلاش کرو، اپنی سوچ بڑی رکھو۔سہارے انسان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح اُمیدیں کمزور کر دیتی ہیں ۔ اپنی طاقت کے بل بُوتے جینا شروع کیجئے ۔ سہاروں کی بسا کھیاں پھینک کر اپنی طاقت آزمائیں۔

تیسرے واقعہ میں اپنے منصب ، ا پنے عہدے کی پاسداری کا سبق ملتا ہے اور یہ سبق فقط کسی حکمران کے لئے نہیں بلکہ ہم سب کے لئے ہے۔ آج ہم میں سے ہر آدمی فارن برینڈ اور غیر ملکی لباس کو عزت دیتا ہے۔ صاحب کہہ کر سلیوٹ کرتا ہے۔ ظاہری لباس سے متاثر ہوتا ہے۔ ہم سب غلام ہیں ریا کاری کے۔ یاد رکھنا ریا کاری انسان کا ظاہر سنوارتی ہے حقیقت میں اس کی تعمیر کا عمل رک جاتا ہے۔ آج ہمارے بہت سے نوجوان یورپ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں، متاثر وہ ہوتاہے جس کے اپنے پاس کچھ نہیں ہوتا اور جس کے پاس ہوتا ہے وہ متاثر نہیں ہوتا، البتہ خوبیوں کو تسلیم کرتا ہے۔

اس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ دوسروں کی نظر میں آپ کی وہی قیمت ہے جو آپ اپنے لئے مقرر کرتے ہیں۔ زندگی میں ایک بات مت بھولیں کہ آپ کا مقابلہ صرف آپ ہی سے ہے۔ کسی سے اپنا تقابل اور موازنہ کر کے خود کو شرمندہ اور پریشان نہ کرو۔ اب یہ بتائو، کیا اسلام نے چودہ سو سال پہلے یہ تمام اصول نہیں بتائے تھے۔ 

یاد کرو ذہن پر زور ڈالو۔ یہی بتایا تھا نا کہ جھوٹ نہیں بولو، وعدے کی پاسداری کرو، گالی نہیں دینا، دھوکہ نہیں دینا، بھلائی کے کام میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، مومن خیر کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، ایسی بہت سی احادیث ہیں، جن میں یہ اصول بتائے ہیں۔ ساتھ مومن کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

قائد اعظم کی زندگی سے مثالیں اس لیے بتائیں کہ لوگ انہیں دنیا کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اللہ نے انہیں ایسا وطن بنانے کا ہنر، سلیقہ، طریقہ انداز بتایا جس (وطن) کی بنیاد خالص لاالہ الااللہ پر تھی۔ آپ معلم ہو تو ایسے پڑھائو، سکھائو کہ آپ کا پڑھایا سکھایا دنیا میں قابل فخر ہوکیوں کہ اُستاد ایک ایساچراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ نبی پاکؐ اسوۂ حسنہ کا رول ماڈل تھے۔ 

ان کی سنت پر عمل پیرا ہو۔اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب پیدا کرو، اپنی قیمت خود بڑھائو، تاکہ یورپ کے چنگل سے آزاد ہو سکو۔ اپنی آنکھیں کھولو، ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی لوگ طلب کرتے ہیں، اس سے بڑی نعمت آزادی ہے۔ اس کی قدر کرو اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں آگے بڑھو۔