• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاکستانی جاسوس نہیں ہوں، پروفیسر نتاشا کول

لندن (جنگ نیوز) برطانیہ کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر نتاشا کول کو بنگلور ہوائی اڈے پر امیگریشن حکام نے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور انہیں ہوائی اڈے پر روک لیا گیا۔ پروفیسر نتاشا کے مطابق حکام نے انہیں 24گھنٹے بعد ائرپورٹ سے ہی واپس برطانیہ بھیج دیا۔ پروفیسر کول انڈین نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ کشمیری پنڈت ہیں اور مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اکثر لکھتی رہتی ہیں۔ وہ ایک معروف ناول نگار، لکھاری اور شاعرہ بھی ہیں۔ نتاشا کرناٹک حکومت کی دعوت پر ’’جمہوری اور آئینی اقدار‘‘ کے موضوع پر ہونے والے دو روزہ سیمینار میں شرکت کیلئے بنگلور آئی تھیں۔ یاد رہے کہ کرناٹک میں اپوزیشن کانگریس کی ریاستی حکومت ہے۔ نتاشا نے اس واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنی کئی پوسٹس میں لکھا ہے کہ اُن کے پاس باضابطہ سفری دستاویزات موجود تھیں مگر اس کے باوجود انہیں انڈیا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈے پر امیگریشن حکام نے انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کی کوئی وجہ نہیں بتائی اور نہ ہی سفر سے پہلے حکومت کی جانب سے انہیں کوئی نوٹس یا اطلاع دی گئی کہ انہیں ملک میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے لکھا کہ افسروں نے صرف اتنا بتایا کہ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے اور یہ کہ ’’یہ حکم دلی سے آیا ہے‘‘۔ انھوں نےاپنی پوسٹ میں مزید دعویٰ کیا کہ بعض افسروں نے غیر سرکاری طور پر اشارہ کیا کہ ماضی میں انہوں نے ہندو نظریاتی تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ اور حکومت پر نکتہ چینی کی تھی، جس کی وجہ سے انہیں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ انڈین حکومت کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ نتاشا کول ’’او آئی سی‘‘ کارڈ ہولڈر ہیں، اس کارڈ کے تحت بیرون ملک میں مقیم انڈین نژاد شہریوں کو انڈیا آنےکے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق اس دوران انہیں ہوائی اڈے پر حراست میں رکھا گیا تھا۔ پروفیسر نتاشا کو واپس بھیجے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اُن کی حمایت میں پیغامات لکھے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے اُن کے بارے میں منفی تبصرے بھی کیے ہیں اور انہیں ملک میں داخل نہ ہونے دینے کے حکومتی فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایک صارف نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ کانگریس کس طرح ایک ملک دشمن پروفیسر کو ملک آنے کی دعوت دے سکتی ہے، وہ واضح طور پر چین کا مہرہ ہیں، کئی سوشل میڈیا صارفین نے منفی تبصرے کرتے ہوئے انہیں ’’مسلم کنورٹ‘‘ اور ’’پاکستان کی حامی‘‘ قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’اگر آپ سوچتی ہیں کہ آپ انڈیا مخالف پوزیشن لیتی رہیں گی اور اس کے مضمرات نہیں ہوں گے تو اب آپ دوبارہ اس کے بارے میں سوچیے۔ نتاشا نے ان منفی تبصروں کے جواب میں لکھا کہ ’’میں نے کسی پاکستانی سے شادی نہیں کی، میں اپنا مذہب بدل کر مسلمان نہیں ہو گئی، میں نہ چین کی اور نہ ہی مغربی ممالک کی ایجنٹ ہوں، میں نہ جہادی ہوں اور نہ کمیونسٹ، نہ میں پاکستانی جاسوس ہوں اور نہ ہی دہشت گردوں کی حمایتی، نہ میں انڈیا مخالف ہوں اور نہ ہی کسی گینگ کی رکن۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا تجربہ بہت تکلیف دہ تھا لیکن اس سے میری نہیں ایک مضحکہ خیر حد تک ڈری ہوئی حکومت کی توہین ہوئی ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا جب گزشتہ ماہ فروری میں ہی ایک فرانسیسی خاتون صحافی کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک صحافت کرنے کے بعد انڈیا چھوڑنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ وینیسا جانیاک23 برس سے فرانس کے کئی جریدوں اور اخباروں کے لیے کام کر رہی تھیں۔ وہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں اور پھر یہیں اُن کی ایک انڈین سے شادی ہو گئی۔ انہیں انڈین سے شادی کرنے کے سبب ’’او سی آئی‘‘ کارڈ ملا ہوا تھا جس سے ملک میں آنے جانے اور رہنے کیلئے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وزارت داخلہ نے گذشتہ مہینے انہیں ایک نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اُن کی منفی اور غلط رپورٹنگ سے بیرون ملک میں انڈیا کی شبیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ ملک میں بھی بدامنی کا سبب بن رہی ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ ممنوعہ علاقوں اور پڑوسی ممالک کے سفر کیلئے اجازت بھی نہیں لیتیں جس کے باعث اُن کا او آئی سی کارڈ منسوخ کر دیا گیا۔ انڈین حکومت کے اس فیصلے کے بعد وینیسا کو اپنی فیملی اور صحافت چھوڑ کر فرانس لوٹنا پڑا تھا۔ اسی طرح مارچ 2023 میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی لکھاری اور کارکن82 سالہ امرت ولسن، انڈین نژاد اشوک سوین، انڈین اور پاکستان نژاد آتش تاثیر کے ساتھ بھی انڈیا نے یہی رویہ اختیار کیا تھا۔(بشکریہ بی بی سی)
یورپ سے سے مزید