اسلام آباد(فاروق اقدس/ تجزیاتی جائزہ) بلاول بھٹو کی ایوان میں ’’سب کو خوش رکھنے‘‘ کی پالیسی پر مبنی تقریر،آئینی، پارلیمانی اور حکومت سازی کیلئے بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے چوتھے روز بھی ایوان میں ہنگامہ آرائی اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، الزامات پر مبنی نعرے اور سپیکر ڈائس کے سامنے شور شرابہ۔ پھر چوتھے روز ہی اجلاس میں کورم کی نشاندہی بھی کر دی گئی جس باعث اجلاس جمعہ تک ملتوی کرنا پڑا۔ وزارت عظمیٰ کیلئے اپوزیشن کے نامزد اور پھر ناکام امیدوار عمر ایوب نے حکومتی کامیاب امیدوار وزیراعظم شہباز شریف کے مقابلے میں اپنی ٹی وی کوریج نہ دیئے جانے پر تحریک التواء بھی پیش کر دی۔ کارروائی کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی تقریر مختلف پہلوؤں سے اٹھائے جانے والے نکات کے حوالے سے موضوع بحث بنی جس کی بنیادی وجہ بلاول بھٹو کی جانب سے اپنی تقریر میں بیک وقت حکومتی اتحاد، اپوزیشن اور اداروں کو خوش کرنے کی کوشش تھی جس میں شاید انہوں نے سب کو ہی ناخوش کر دیا، کیونکہ ایوان میں ایک طرف اپوزیشن کو ان کی تقریر کے دوران ڈیسک بجاتے اور کبھی احتجاج کرتے ہوئے ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو دوسری طرف کم و بیش ایسی ہی صورتحال ان کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کی بھی تھی جو ان کے بعض ریمارکس پر اپنے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک موقعہ پر بلاول بھٹو کا اپوزیشن کو کہنا تھا کہ اگر آپ شہبازشریف کی پالیسیوں کو اور ان کو وزیراعظم نہیں مانتے تو آپ کو ان پر تنقید کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کل کی تقریر میں جو معاشی نکات اٹھائے تھے ان پر عمل کر کے بحران سے نکلا جا سکتا ہے جس پر اتحادی جماعتوں کے ارکان نے ڈیسک بجائے۔