• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ رقم، زرداری پھر صدر مملکت، 411 ووٹ لئے، دوسری بار عہدہ سنبھالنے والے پہلے سویلین صدر ، اچکزئی کو 181 ووٹ ملے

کراچی، اسلام آباد(نمائندہ جنگ/ راناغلام قادر/طاہرخلیل، ایجنسیاں) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زردرای نے الیکٹورل کالج کے 411 ووٹ حاصل کرکے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے اور یوں وہ دوسری بار صدر کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے سویلین صدر بن گئے ہیں، ان کے مدمقابل محمود خان اچکزئی کو181 ووٹ مل پائے جبکہ 9 ووٹ مسترد کردیے گئے ۔زرداری سندھ سے منتخب ہونے والے مسلسل پانچویں صدر بھی ہیں۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی اپنی ہوم گراؤنڈ بلوچستان اسمبلی میں زیرو پر آؤٹ ہوگئے۔منتخب ہونے کے بعد صدرمملکت زرداری نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے کی تھی ہم نے تو صرف تجویز کی تھی، پہلے بھی جوہوا پارلیمنٹ کیا،اب بھی پارلیمنٹ ہی کرے گی۔جبکہ اسلام آباد سے نامہ نگار کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کے امیدوار محمود خان اچکزئی نےکہا ہےکہ صدارتی الیکشن بڑے اچھے ماحول میں ہوئے، پہلی بار صدارتی الیکشن میں نہ کوئی ووٹ بیچا گیا نہ خریدا گیا۔راولپنڈی سے مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق آصف زرداری بھاری اکثریت سے صدر منتخب، دوسری بار صدر بننے والی پہلی سول شخصیت بن گئے۔تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے نتائج جاری کردیے1044 اراکین نے ووٹ کیا الیکشن کمیشن نو ووٹ مسترد کیے گئے 1035 ووٹ درست قرار دیئے گئے الیکشن کمیشن کے مطابق آصف علی زرداری نے 411 ووٹ حاصل کیے الیکشن کمیشن نے کہا کہ محمود خان اچکزئی 181 ووٹ حاصل کیے آفیشل ریزلٹ تیار کرکے آج وفاقی حکومت کو بھیجا جائے گا۔ آصف زرداری کو مجموعی طور پر 411 الیکٹورل ووٹ ملے جس میں سے چاروں اسمبلیوں سے 156 جبکہ پارلیمنٹ سے 255 ووٹ ملے۔صدارتی انتخاب میں پارلیمنٹ ہاؤس سے محمود اچکزئی کو 119ووٹ ملے جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری پروڈکشن آرڈر کے باوجود صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلیے نہیں آنے دیا گیا ۔زردار ی کو سندھ اسمبلی سے 58 اچکزئی کو 3 ، بلوچستان اسمبلی سے زرداری کو 47 اچکزئی کو صفر، پنجاب اسمبلی میں زرداری کو 43.16 اوراچکز ئی کو 17.54 الیکٹورل ووٹ ملے،کے پی میں زرداری کو 07 جبکہ اچکزئی کو 41 الیکٹورل کالج کے ووٹ ملے۔پارلیمنٹ کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، پنجاب اسمبلی کیلئےممبر الیکشن کمیشن ،سندھ ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلیوں کیلئے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے پریذائیڈنگ افسران کی خدمات انجام دیں ،قبل ازیں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل صبح 10 سے شام 4 بجے تک جاری رہا جس دوران قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔قومی اسمبلی میں پولنگ کا عمل شروع ہوا تو سب سے پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ نے کاسٹ کیا، سندھ اسمبلی میں 160ارکان اسمبلی نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا، جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ جی ڈی اے پہلے ہی صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے۔بلوچستان اسمبلی میں بھی 62 اراکین میں سے 47 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے، تمام ووٹ آصف زرداری کو ملے۔جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک اور بی این پی عوامی کے اراکین نے پولنگ میں حصہ نہیں لیا۔جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف نے صدارتی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا، جے یو آئی ف کے قومی اسمبلی میں 9 اور سینیٹ میں 4 ووٹ ہیں۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے بلوچستان اسمبلی سے امیدوار عبدالمجید بادینی اور حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان نے صدارتی الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے بھی صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا۔صدارتی انتخاب میں حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری اور سنی اتحاد کونسل و دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی امیدوار تھے۔صدارتی الیکشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور پنجاب اسمبلی کیلئے الیکشن کمیشن کے ممبر نثار درانی کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا۔سینیٹر شیری رحمان کو آصف علی زرداری کی پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا جبکہ سینیٹر شفیق ترین، محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ ہیں۔سندھ اسمبلی کیلئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور بلوچستان اسمبلی کیلئے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ پریذائیڈنگ افسر تھے۔آئین کے اس جدول کے تحت بلوچستان اسمبلی کا ایوان سب سے کم ارکان پر مشتمل ہے جہاں 65 اراکین ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے 65 ارکان کو پنجاب کے 371 کے ایوان پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی کے5.7 ارکان کا ایک صدارتی ووٹ تصور ہوا۔اسی تناسب سے 168 کے سندھ اسمبلی کے ایوان میں 2.6 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوااور خیبرپختونخوا اسمبلی کے 145 کے ایوان میں 2.2 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوا۔صدارتی انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوا جس میں ہر رکن کو ایک بیلٹ پیپر جاری کیا گیا اور جس رکن کو بیلٹ پیپر جاری کیاگیا اس کے نام کا اندراج بھی کیا گیا جبکہ بیلٹ پیپر پر متعلقہ پریذائیڈنگ آفیسر کے دستخط بھی تھے۔دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے آصف علی زرداری کو دوسری مرتبہ صدرِ پاکستان منتخب ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری وفاق کی مضبوطی کی علامت ہوں گے، امید ہے بطور صدر پاکستان آصف علی زرداری اپنی آئینی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیں گے۔ قبل ازیں انتخاب کے بعداسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نےکہا کہ صدارتی امیدوار نامزد کرنے اور ساتھ دینے پر پی ٹی آئی کا مشکور ہوں۔محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں سب کچھ خریدا جاسکتا ہے، لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ملک میں نئے دور کا آغاز ہےکہ خرید وفروخت نہیں ہوئی، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں نے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا، پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نےکہا کہ میں آصف زرداری کو مبارک باد دینے گیا تھا مگر وہ موجود نہیں تھے، پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو آصف زرداری کی کامیابی کی مبارک باد دے دی ہے۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے صوبے کی اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہیں ملا، ڈاکٹرعبدالمالک رات تک تو ہمیں ووٹ دینے پر راضی تھے مگر اس کے بعد پھسل گئے، کم از کم مجھے ایک ووٹ تو عبدالمالک دےدیتے، انہوں نے وعدہ کیا تھا، ہمارے اتحادیوں نے ہمیں ووٹ دیا، اختر مینگل نے ووٹ دیا، مولانا فضل الرحمان شاید سوگئے ہوں، ان کا ووٹ ہمیں پڑنا چاہیے تھا۔سربراہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نےکہا کہ نواز شریف اپنی جماعت کے سمجھدار عناصر کی آواز سنیں، ایک پارٹی کو پاکستان کے عوام نے ووٹ دیے ہیں اسے ماننا ہوگا، پنجاب اور خیبرپختونخوا سمیت ملک میں غصہ ہے اس پر قابو پانا ہوگا، پتہ نہیں ہم نے اس ملک کو کہاں تک پہنچایا ہے۔بانی پی ٹی آئی سے جو بھی اختلاف ہو لیکن سیٹیں جیتی ہیں، آئین سے حل نکالا جائے اور مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دیں، آئین منتخب نشستوں پر خواتین اور اقلیتوں کو حق دیتا ہے، کسی کی نشستیں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے والے آپ کون ہیں۔ ان کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا ہوم گراؤنڈ بلوچستان ہے جہاں سے انہیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا ۔ اپنی صو بائی اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہ ملنےسے ان کی سیا ست کو شدید دھچکہ لگاہےاور انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان اسمبلی کے 62 میں سے47 ارکان نےصدارتی انتخاب کیلئے ووٹ کاسٹ کیے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے 12 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جماعت اسلامی، حق دوتحریک کے ایک ایک رکن نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔

اہم خبریں سے مزید