کراچی (رفیق مانگٹ) کیا شہباز بھارت سے تعلقات معمول پر لا سکتے ہیں،جرمن خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ مودی کی شہباز شریف کو مبارکباد سے سفارتی سطح پر سرد مہری کےخاتمے کی امید پیدا ہوئی، قیاس آرائیاں ہیں کہ شہباز شریف نئی دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کر رہے ہیں.
امریکی تھنک ٹینک ماہر کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نئی دہلی کی طرف دوستانہ اشارہ دے کر بہت بڑا خطرہ مول لیں گے،مائیکل کوگل مین نئی دہلی ممکنہ طور پرشہباز شریف کی کوششوں کو مستردکردے گی، جس سے سیاسی طور پر نقصان پہنچے گا.
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ امریکا اور عرب خلیجی ممالک کوپاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ،تجزیہ کار کے مطابق امریکا اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالے تو مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے.
امریکی انٹیلی جنس جائزہ کے مطابق بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہیں گے چین سے مسلح تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے شہباز شریف کوحکومتی سربراہ بننے پر مبارکباد دی، جس سے سفارتی سطح پر سرد مہری کےخاتمے کی امید پیدا ہوئی لیکن شریف کو نئی دہلی سے تعلقات بہتر کرنے کےلئے بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری طرف بھارتی میڈ یا نے امریکی انٹیلی جنس جائزے کے حوالے سے لکھا کہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہیں گے چین سے مسلح تصادم کا خطرہ بڑھ گیا، ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے سالانہ جائزے کے مطابق، تاریخی کشیدگی اور فوجی تصادم کے امکانات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
جرمن خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا مودی کی طرف سے شہبازشریف کو بھیجا جانے والا پیغام، اگرچہ مختصر اور سادہ تھا، برسوں کے کشیدہ تعلقات اور کبھی کبھار کی سرحدی جھڑپوں کے بعد بدلتے وقت کی علامت محسوس ہوا۔
مودی نے ایکس پر لکھا،(شہباز شریف) کو پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھانے پر مبارکباد،شریف نے کچھ دن بعد اسی طرح کی ایک مختصر پوسٹ کے ساتھ جواب دیا، مودی کی مبارکباد کے لیے شکریہ ادا کیا۔لیکن یہ دو جنوبی ایشیائی ممالک کی سرحدوں سے باہر کے سفارت کاروں سمیت لوگوں کو بات کرنے کے لیے کافی تھا۔
مودی کے پیغام کے بعد، امریکا نے کہا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نتیجہ خیز اور پرامن مذاکرات کا خیرمقدم کرے گا۔یہ پیش رفت نواز شریف کی طرف سے حالیہ مہینوں میں مفاہمت کے اشارے کیے جانے کے بعد سامنے آئی۔کچھ حلقے پہلے ہی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ نئے وزیر اعظم نئی دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ روایتی طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کی مخالفت کرتی ہے ،اس لیے نئے سربراہ کا ان کے خلاف کچھ کرنے کا امکان نہیں ۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے شریف اسٹیبلشمنٹ کو شامل کر کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتری کی کوشش کر سکتے ہیں۔کیا شہباز شریف اپنے بھائی کی پالیسی کی پیروی کرسکتے ہیں، نواز شریف نے 1999 میں اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ جو بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی ان کی کوشش تھی۔
انہوں نے 2015 کے آخر میں اپنی نواسی کی شادی میں نریندر مودی کا استقبال کرکے ایک بار پھر سب کو دنگ کر دیا۔ سابق سفارت کار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار بھارت ہے، خاص کر خطے میں یکطرفہ تبدیلیاں کرنے کے بعد نئی دہلی کی جانب سے کشمیر پر بات کرنے سے انکار کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہیں۔
دہلی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، جن پر قابو پانا آسان نہیں ۔جب نواز شریف نے 2013 سے 2017 کے درمیان بھارت سے تعلقات کی کوشش کی تو بلاول بھٹو نے انہیں غدار قرار دیا۔ دائیں بازو کی جماعتیں بھی اس طرح کی مخالفت کرتی ہیں، جن میں سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی بھی شامل ہے۔
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے مطابق، خان اور ان کے اتحادی نواز شریف کو نئی دہلی کی طرف مفاہمتی قدم اٹھانے اور کشمیر کے تنازع میں پاکستان کے مفادات کو فروخت کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
پاکستان کو ہندوستان کے تحفظات کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ امریکہ مذاکرات کا دروازہ کھولنے کے سوال پر حقانی نے کہا کہ لگتا ہے کہ زیادہ تر بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان تعلقات معمول پر لائیں،اور ان میں سے کچھ، جیسے امریکا اور عرب خلیجی ممالک، بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں جسے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔