اسلام آباد (مہتاب حیدر)پاکستان آئندہ ماہ IMF سے نئے بیل آؤٹ پیکیج کی باضابطہ درخواست کریگا، جاری مذاکرات صرف ایس بی اے پروگرام کے تحت دوسرے جائزے کی تکمیل پر مرکوز، اگلے پیکیج میں کوٹہ کے سائز کو بڑھانا یا پھر کلائمیٹ فنانس سے رجوع کرنے کے امکانات زیر غور ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان نے آئندہ ماہ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہونے والے آئی ایم ایف/ورلڈ بینک کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت تازہ بیل آؤٹ پیکج کے طویل اور بڑے سائز کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے باضابطہ درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف /ورلڈ بینک کے نام سے مشہور بریٹن ووڈ انسٹی ٹیوشنز کی سالانہ بہار میٹنگ واشنگٹن ڈی سی میں 15 سے 20 اپریل تک منعقد ہونے والی ہے اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں پاکستان کا وفد جس میں سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، سیکرٹری ای اے ڈی کاظم نیاز اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد پر مشتمل سرکاری وفد شرکت کرے گا۔
توقع ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 8 ارب ڈالرز سے زائد کے تازہ بیل آؤٹ پیکج کی باضابطہ درخواست کرے گا جس میں موسمیاتی مالیات کے ذریعے اضافے کے امکانات ہیں۔
ای ایف ایف پروگرام کے طویل اور بڑے سائز کے لیے دو اہم امکانات ہیں جیسا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے اضافی کوٹے کے لیے درخواست کر سکتا ہے جیسا کہ 2008 میں ایسا کیا گیا تھا جب اسلام آباد نے پی پی پی حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے اپنا 700 فیصد کوٹہ حاصل کیا تھا۔
دوسرا امکان موسمیاتی فنانس انسٹرومنٹ کے ذریعے ای ایف ایف کو بڑھانا ہے جس کے لیے پاکستان حالیہ برسوں میں موسمیاتی انحطاط کے بدترین اثرات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اہل ہوگیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے پروگرام کے طویل اور بڑے سائز کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں آپشنز کو یکجا کرنے کا امکان ہو سکتا ہے جیسا کہ موسمیاتی فنانس کے ذریعے کوٹہ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کو سوال بھیجا گیا لیکن اس خبر کے فائل کرنے تک کوئی جواب نہیں ملا۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن فی الحال 3 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام کے تحت دوسرے جائزے کی تکمیل اور 1.1 ارب ڈالرز کی تیسری اور آخری قسط کے اجراء کے لیے اسلام آباد کا دورہ کر رہا ہے لیکن آئندہ ای ایف ایف پروگرام کے بارے میں تفصیلات میں کوئی بات چیت نہیں ہے۔
آئی ایم ایف مشن کا موجودہ دورہ صرف زیر التواء جائزہ کو پورا کرنے کے لیے ہے اور اگر دونوں فریق اسٹاف لیول معاہدہ کرتے ہیں تو توقع ہے کہ فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ 12 اپریل 2024 تک ایس بی اے کے تحت 1.1 ارب ڈالرز کی آخری قسط کے اجراء کے لیے اپنی منظوری دے دے گا۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی کہ محدود ٹائم فریم کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف مشن نے اپنی بات چیت کا دورانیہ مختصر رکھا ہے اور 14سے 18مارچ تک مذاکرت رکھے ہیں تاکہ وہ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کا مسودہ محدود مدت میں تیار کر سکیں۔ پاکستانی فریق شاید آئی ایم ایف ٹیم کو ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے لیے جانے کی خواہش کے بارے میں زبانی طور پر مطلع کرے لیکن آئی ایم ایف ٹیم نے صرف جاری ایس بی اے پروگرام کے لیے بات چیت کو مرکوز رکھا ہے۔
کچھ آزاد معاشی ماہرین نے بھی خبردار کیا کہ پاکستان اور مصر کے معاملے میں آئی ایم ایف پروگرام میں مماثلت ہو سکتی ہے جیسا کہ مصر کی فنڈنگ کو حال ہی میں سخت شرائط کے ساتھ 8 ارب ڈالرز تک بڑھایا گیا جس کے تحت حال ہی میں 200 فیصد اضافے کے علاوہ پالیسی ریٹ میں 600 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا اور 30 فیصد کی قدر میں کمی کی توقع کی گئی۔ ای ایف ایف بڑھانے کے حوالے سے پاکستان لچک اور پائیداری کی سہولت (آر ایس ایف) کے لیے آئی ایم ایف سے درخواست کرنے کا امکان تلاش کر رہا ہے جو کہ ادائیگیوں کے ممکنہ توازن کے استحکام کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اصلاحات کرنے والے بشمول موسمیاتی تبدیلی اور وبائی امراض کی تیاری سے متعلق ممالک کو سستی طویل مدتی فنانسنگ فراہم کرتا ہے۔