مدیحہ کو کینیڈا میں رہتے برسوں بیت گئے تھے۔ وہ شادی کے چند سال بعد ہی یہاں آگئی تھی، پھر آہستہ اہستہ کینیڈا اس کا دوسرا وطن بن گیا۔ اللہ نے اُسے دو پیارے سے بچّوں، ریحان اور سیمیں سے نوازا۔ شوہر باسط بھی مزاج کا بہت اچھا تھا، جس نے اُسے نئے مُلک، نئے شہر، نئے لوگوں میں ایڈجسٹ ہونے میں بہت مدد دی، زندگی ایک خُوب صُورت ڈگر پر رواں دواں ہوگئی، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اُسے اپنے وطن کی یاد ہمیشہ ستاتی رہتی۔
وہ سب پیارے رشتے، جو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی، اُن کی یاد دل میں چٹکیاں لیتی ہی رہتی۔ شروع میں جب بچّے چھوٹے تھے، تو سال دو سال بعد پاکستان کا چکر لگ جایا کرتا تھا۔ مگر جوں جوں بچّے بڑے ہوتے گئے، اُن کی مصروفیات اور ذمّے داریاں بڑھتی چلی گئیں، تو پھر وہ کم کم ہی جا پاتی تھی۔ حتٰی کہ جب اُس کے پیارے بابا شدید بیمار پڑ گئے تو وہ وہاں دیارِ غیر میں تڑپتی رہی، لیکن جانے کی کوئی سبیل نہ بن سکی۔ اور وہ برگد جیسی سایہ دار ہستی اس دارِفانی سے کُوچ کر گئی۔
اُس کے بعد پھر خوشی اور غمی کے کئی مواقع یوں ہی گزر گئے۔ بچّے شادی کے قابل ہوئے، تو اس کے دل میں خواہش جاگی کہ مَیں اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کروں تاکہ اُن کا وطن سے رشتہ جُڑا رہے۔ بچّے بھی بھلے مانس تھے۔ بیٹا بڑا تھا، اُس نے اپنی جیون ساتھی سے متعلق ذہن میں جو خاکہ تراش رکھا تھا، ماں کے گوش گزار کر دیا۔ ویسے وہ نہ بھی بتاتا تو بحیثیت ماں وہ جانتی تھی کہ اُس کا بیٹا کیسی لڑکی کو اپنا جیون ساتھی بنانا پسند کرے گا۔ سو، وہ دل میں ہزاروں ارمان سجائے، پورے پانچ برس بعد لاہور کی سرزمین پر اُتری۔ جہاں اُس کی بہن، بھائی اپنے اپنے خاندان کے ساتھ اس کے منتظر تھے۔ امّی ایئرپورٹ پر نہ آسکی تھیں کہ اُن کی طبیعت ناساز تھی۔
کتنے ہی دن تو عزیزوں، رشتے داروں سے ملنے ملانے میں گزر گئے۔ بہت سی نوجوان بچیوں سے بھی ملاقات ہوئی، جنہیں وہ لاشعوری طور پر پرکھتی رہی۔ اُسے تھوڑی مایوسی سی ہوئی کہ یہاں بچوں کی اکثریت فیشن اور برانڈز کی دل دادہ تھی۔ ایک بار کوئی کپڑا، جوتا کسی تقریب میں پہن لیا، تو دوبارہ پہننا شان کے خلاف سمجھا جاتا۔ لگ بھگ پورے معاشرے کو نمود و نمائش کےعُنصر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، جب کہ وہ جس معاشرے سے آئی تھی وہاں تو "love ,preloved" کا تصوّر جانے کب سے رائج تھا۔ وہ لوگ اچھی حالت میں موجود استعمال شدہ چیزوں کو نہ صرف مخصوص دکانوں پر بیچ دیتے تھے بلکہ وہیں سے خرید کر فخریہ پہنتے بھی تھے۔ وہ ری سائیکلنگ پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ یوں اسراف جیسی لعنت سے بہت حد تک بچے ہوئے تھے۔
اِسی دوران رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا۔ مدیحہ بہت ہی خُوش تھی کہ اِس بار ایک طویل مدت بعد وہ یہ بابرکت مہینہ اپنوں کےدرمیان گزارے گی، مگر جلد ہی اُسے احساس ہوا کہ منہگائی نے تو یہاں متوسّط طبقے سے ساری خوشیاں ہی چھین لی ہیں۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی تک اِن کی پہنچ سے دُور ہوچُکی ہیں۔ ایک روز اُس نے یونہی اپنے چھوٹے اور اکلوتے بھائی کو اخراجات کا حساب کتاب کرتے دیکھا۔ اُس کے سر کے بال سفید ہوچُکے تھے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور روزمرّہ کی ٹینشنز نے مزاج کی نرمی چھین لی تھی، لیکن بیوی، بچّوں کی طرف سے عید کے برانڈڈ جوڑوں کی فرمائشیں ہنوزجاری تھیں۔ یہ سب دیکھ کر اُسے بہت دُکھ ہوا۔ بہرحال، اُس نے فیصلہ کیا کہ اِس بار بہن اور بھائی کے بچّوں کو اُن کی پسند کی شاپنگ وہ خُود کروائے گی۔
پھر… وہ کچھ دن کے لیے چھوٹی بہن فریحہ کے گھر رہنے چلی آئی۔ یہاں اُسے قدرے سکون ملا۔ گھر میں سادگی کا عُنصر غالب تھا۔ بہن نے اپنی دونوں بچیوں کی تربیت بھی عُمدہ کی تھی۔ اس عرصے میں دونوں بہنیں دو تین جگہوں پر ریحان کا رشتہ دیکھنے بھی گئیں۔ مگر ہر جگہ اُن کی آمدنی، کینیڈا میں گھر، گاڑیوں کے بارے میں زیادہ تحقیقات کی گئیں۔ مدیحہ کے سادہ سے لباس کو بھی عجیب نظروں سے دیکھا گیا۔ مادی اشیاء کے لین دین ہی کی بات کو اولیت دی گئی۔ سو، وہ خاصی مایوس سی ہوئی۔ لیکن فریحہ اُسے تسلیاں دیتی رہی کہ ہمارے ریحان کی قسمت میں ضرور کوئی بہت اچھی لڑکی لکھی ہے۔ بس، ذرا دیر ہو رہی ہے، مگر اِس تاخیر میں کوئی نہ کوئی بھلائی ہی ہو گی۔
اِسی دوران اُنہیں اپنی خالہ کی وفات کی خبر ملی، جو سرگودھا میں مقیم تھیں۔ امّی جا نہ سکتی تھیں۔ سو، دونوں بہنیں، بھائی کے ساتھ سرگودھا روانہ ہوئیں۔ وہاں دوتین دن قیام رہا۔ اس دوران مدیحہ کی ملاقات اپنی پرانی سہیلی تہمینہ سے بھی ہوئی، جو رشتے میں ماموں زاد بھی تھی۔ تہمینہ نےاصرار کیا کہ کچھ دن ہمارے پاس بھی رہو۔ یہ اصرار اس قدر محبّت بَھرا تھا کہ وہ انکار نہ کر سکی۔ فریحہ اور بھائی تو لاہور واپس چلے گئے، لیکن مدیحہ وہیں رہ گئی۔
لاہور کی نسبت وہاں لوگوں کے مزاجوں، رویّوں میں سادگی تھی اور پرانی اقدار کا پاس بھی۔ گھر میں تہمینہ، اُس کے شوہر اور اس کے ساس، سسر ہی تھے۔ بیٹا، بیٹی دونوں زیرِ تعلیم تھے۔ سرمد آغا خان یونی ورسٹی، کراچی میں میڈیکل کے آخری سال میں تھا۔ جب کہ بیٹی رائحہ، لاہور میں این سی اے میں پڑھ رہی تھی۔
یہاں رمضان گزارتے ہوئے مدیحہ کو پرانے دن یاد آتے رہے، جب دونوں سہیلیاں مل کر سحری، افطاری بنایا کرتی تھیں۔ اب تو تہمینہ کے شوہر بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔ میاں بیوی میں بہترین ذہنی ہم آہنگی تھی۔ سو، زندگی آسودہ حال تھی۔ اسی دوران ویک اینڈ پر رائحہ گھر آگئی۔ وہ بھی بہت ہی سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ اُس کے آنے سے گھرکا سارا ماحول جیسے سج سا گیا تھا۔ اب وہ بھی سحری، افطاری کی تیاری میں ماں اور مدیحہ کی مدد کر رہی تھی۔ وہ بڑی محبت کرنے والی، شوخ و چنچل سی بچّی تھی۔ دادی، دادا سے خُوب گپیں لگاتی۔ اُن کا دل و جان سے خیال رکھتی۔
ایک روز مدیحہ سے کہنے لگی۔ ’’خالہ…آپ کے بال کتنے روکھے ہو رہے ہیں، لائیں آپ کے سر میں تیل ڈال دوں۔‘‘ ’’نہیں بیٹا! بالکل نہیں…تم یہاں آرام کرنے آئی ہو، نہ کہ میری خدمتیں کرنے۔‘‘ مدیحہ نے فوراً منع کیا۔ مگر وہ بصد اصرار اُس کے سر میں مساج کرنے بیٹھ گئی۔ مدیحہ نے اس قدر سکون اور خوشی محسوس کی کہ بےساختہ رائحہ کے ہاتھ چوم لیے اور بہت دُعائیں بھی دیں۔
لاہور واپس آئی تو بیٹے کو رائحہ کے بارے میں بتایا، پھر تہمینہ سے فون پر بات کرکے ارادہ ظاہر کیا۔ تہمینہ نے کہا کہ ’’ہم نے تو سب کچھ رائحہ پر چھوڑ رکھا ہے۔ وہ وہیں لاہور میں ہے۔ تم لوگ اُس سے وہیں مل لو اور بات کرلو۔ پڑھی لکھی، روشن خیال بچّی ہے۔ ہمیں اُس کے ہر فیصلے کا احترام ہو گا۔‘‘
مدیحہ نے اگلے دن رائحہ کو فریحہ کے گھر ڈنر پہ انوائیٹ کرلیا۔ فریحہ کو بھی بچّی بہت اچھی لگی، پھر دونوں بہنوں نے اُس سے بات کی اور ریحان کا فون نمبر اور تصاویر بھی دیں کہ آپس میں بات کر سکیں۔ رائحہ نے بڑے رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے جواب دیا کہ اُسے کچھ وقت دیا جائے۔
مدیحہ کا باقی رمضان اِس حوالے سے خُوب دُعائیں کرتے گزر رہا تھا کہ عید کے دوسرے ہفتے تو اس نے واپس چلے جانا تھا۔ وہ اپنے رب کی طرف سے کسی خُوش خبری کی منتظر تھی۔ آخر عید سے محض دو روز قبل تہمینہ کا فون آگیا کہ ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔ مدیحہ کے تو پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ وقت کم تھا، منگنی کی شاپنگ بھی کرنی تھی۔
سو، اگلے دن شام ہی کو وہ رائحہ کے ہاسٹل پہنچ گئی، تاکہ اُسے، اُس کی پسند کی شاپنگ کروائی جاسکے، مگر وہ تو رائحہ کی باتیں سُن کر بہت ہی خوش گوار حیرت میں مبتلا ہو گئی۔ رائحہ کا کہنا تھا کہ وہ بہت سادہ سا سوٹ خریدنا چاہتی ہے،جو بعدازاں دوبارہ بھی استعمال ہو سکے اور ہیوی جیولری، میک اَپ کا تردّد بھی نہ ہی کیا جائے، تو اچھا ہے۔
آج صبح عید تھی اور فریحہ کے گھر میں خُوب چہل پہل تھی۔ اُس کی بیٹیاں بھی اپنے ریحان بھائی کی منگنی کے لیے بہت پُرجوش تھیں، جب کہ مدیحہ کے تو قدم ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ دوپہر کو وہ بھائی، بہن کی فیملی اور ماں کے سنگ سرگودھا کی جانب روانہ ہو گئی، جہاں اُن کا بھرپور محبّت و خلوص کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ رائحہ، گلابی لباس پہنے، سادہ سے رُوپ میں جیسے زندگی میں دَر آنے والی گلاب رُتوں کا استعارہ بنی بیٹھی تھی۔ منگنی کی رسم کے دوران ریحان، سیمیں اور باسط سے وڈیو کال ملا لی گئی۔ اور پھر، مبارک سلامت کے شور میں جب رائحہ کو انگوٹھی پہنائی گئی تو جیسے ہرسُو خوشیاں ہی خوشیاں رقص کُناں تھیں۔
مدیحہ کی تو دلی مسرت و شادمانی سے آنکھیں ہی بَھرآئیں۔ وہ جو پاکستان آنے کے بعد سے اب تک اندر سے بہت رنجیدہ سی تھی کہ ’’میرے اپنے وطن میں بھی صرف نفسانفسی، نمود و نمائش ہی رہ گئی ہے۔ سادگی و رواداری، تہذیب و شائستگی، خلوص و اپنائیت، تعلیم و تربیت کا تو یہاں بھی فقدان ہی ہے۔‘‘ اب بہت حد تک پُر سکون اور اپنے بچّوں کے سامنے سُرخ رُو بھی تھی کہ بہرحال، ’’اپنا وطن پھر اپنا ہے۔‘‘ اور… اب تو اُس کی ’’عید‘‘ بھی صحیح معنوں میں ’’عید‘‘ ہوگئی تھی۔