کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق اسسٹنٹ جیل سپرنٹنڈنٹ مجید قریشی نے جیل میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام کے حوالے سے اپنی یادداشت شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بحیثیت قیدی سزائے موت پنڈی جیل لانے سے کچھ مہینہ پہلے مجھے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آپ سیکورٹی کا انتظام کریں ایک اہم شخصیت کو لایا جارہا ہے وہ شخصیت مسعود محمود تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سلطانی گواہ تھے ذوالفقار علی بھٹو کو پنڈی جیل اس وقت لایا گیا جب مسعود محمود نے اپنا بیان بطور سلطانی گواہ دیدیا اس کے بعد بھٹو صاحب کو مری کے گیسٹ ہاؤس سے پنڈی جیل لایا گیا جہاں سے ان کو لاہور جیل شفٹ کردیا گیا اور بعد ازاں وہ 16مئی 1978ء کو دوبارہ پنڈی جیل منتقل کردیئے گئے ۔ وہ جیو کے پروگرام’’ ٹاک شاک‘‘ میں اعزاز سید سے گفتگو کررہے تھے ۔ سابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ راولپنڈی جیل مجید قریشی کا کہنا ہے کہ انہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے قتل کیس کی حقیقت پوچھی تو انہوں نے بتایا تھا کہ قتل کا کیس جھوٹ ہے، انہوں نے کسی کا قتل نہیں کیا۔ مجید قریشی نے کہا کہ یہ امریکا اور روس کی سازش تھی، وہ مسلم ورلڈ کا تھرڈ بلاک بنانا چاہتے تھے اور امریکا اور روس اس کے خلاف تھے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کی جگہ پر کیمرہ موجود تھا، بھٹو صاحب کی لاش کے کپڑے اتارے گئے تو اس وقت بھی تصویریں اتاری گئیں، انتظامیہ اس طرح موت کی تصدیق کرنا چاہتی تھی۔مجید قریشی کا کہنا تھا کہ بھٹو کو آخری ملاقات میں بےنظیر بھٹو کو جنگلے کے باہر سے ہی ملنے دیا گیا تھا، بے نظیر کی آنکھوں میں آنسو تھے، ذوالفقار علی بھٹو کبھی اپنی بیٹی کا ماتھا چومتے، کبھی بوسہ دیتے، بے نظیر بھٹو بہت رو رہی تھیں، یہ تکلیف دہ لمحہ بہت دیر تک جاری رہا۔ذوالفقار علی بھٹو کو جس گاڑی میں لایا گیا تھا وہ پولیس کی گاڑی تھی او راس کے پچھلے حصے میں ان کو بٹھایا ہوا تھا جہاں سے میں ان کو لے کر جیل سپرٹنڈنٹ یار محمد کے کمرے میں گیا جہاں ان کو چائے پیش کی گئی اس موقع پر جیل سپرٹنڈنٹ یار محمد نے ان سے سوال کیا کہ بھٹو صاحب یہ جو آپ پر قتل کا کیس بنایا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے جس پر بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ سب جھوٹ ہے میں نے کسی کو کوئی حکم نہیں دیا تھا کسی کو قتل کرنے کا یہ تو امریکا اور روس کی سازش ہے میں تو مسلم دنیا کا ایک تھرڈ بلاک بنانا چاہتا تھا او ریہ اس کے مخالف تھے اور یہ ساری سازش ان کی جانب سے ہی رچی گئی ہے میں کسی بھی قسم کے قتل میں ملوث نہیں ہوں ۔بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ یہ جو قتل کی دفعہ ہوتی ہے 302یہ بہت سخت ہوتی ہے اور ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ 302 کسی کاغذ پر لکھ کر اگر درخت پر بھی لٹکا دیا جائے تو ہرا بھرا درخت بھی جو ہے وہ بھی سوکھ جاتا ہے ۔ جس پر یار محمد نے کہا آپ خدا سے رجوع کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا جس پر وہ چپ کرگئے اور کہا ٹھیک ہے جس کے بعد ہم بھٹو صاحب کو ان کے جیل میں بنے کمرے میں لے گئے جہاں ان کے لئے بیڈ بھی موجود تھا یہ اسپتال کا بیڈ تھا جبکہ اس کے ساتھ والے کمرے میں بھٹو صاحب کا سامان موجود تھا جبکہ تیسرے کمرے میں عبدالرحمان تھا جو ان کا مشقتی تھا اس کے سامنے کچن بنا ہوا تھا جبکہ برابر والے کمرے میں باتھ روم تھا جس میں ایک کموڈ اور نل تھا اور فرش بھی بالکل عام سا تھا ۔ بھٹو صاحب نے کہا یہ جو بیڈ ہے یہ مجھے تکلیف دے گا اس کو تبدیل کرادیں جس پر ان کو بتایا گیا کہ جی اس کے لئے اگر کورٹ اجازت دے گی تو وہ ہم بدلوادیں گے ابھی تو آپ کو یہی استعمال کرنا ہوگا جس کے بعد کچھ عرصہ تک وہ وہی بیڈ استعمال کرتے رہے ۔مجید قریشی کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب مجھے جب بھی بلاتے نام لے کر بلاتے تھے کیونکہ ان کو یاد تھا کہ میں ان سے اپنے طالب علمی کے دور میں ملاقات کرچکا ہوں ۔اس سوال کہ کون کون لوگ بھٹو صاحب سے ملاقات کے لئے آتے تھے کہ جواب میں سابق جیل سپرٹنڈنٹ مجید قریشی کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب کی زیادہ تر ملاقاتیں وکلا کے ساتھ ہوتی تھیں جن میں دوست محمد اعوان غلام نبی میمن اور یحییٰ بختیار زیادہ تر ان سے ملاقات کے لئے آتے تھے جبکہ ایک مرتبہ حافظ لاکھو بھی بھٹو صاحب سے ملاقات کے لئے آئے ہیں جبکہ 15 دن میں ایک مرتبہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ اور ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو ملاقات کے لئے آیا کرتی تھیں اس کے علاوہ بھٹو صاحب کی پہلی بیگم امیر بیگم نے بھی ایک مرتبہ ان سے ملاقات کی تھی جبکہ ایک مرتبہ حفیظ پیرزادہ بھی ملاقات کے لئے آئے ۔اس سوال کہ اطلاع ہے کہ بھٹو صاحب نے ایک اور خفیہ شادی بھی کررکھی تھی کیا وہ بھی ان سے ملاقات کے لئے آتی تھیں جس پر مجید قریشی کا کہنا تھا کہ نہیں ایسی کوئی بھی خاتون ان سے ملاقات کے لئے جیل نہیں آئی ہیں اور نہ ہی کبھی بھٹو صاحب کی بہنیں ان سے ملنے جیل آئیں ۔ بھٹو صاحب کے کھانے پینے کے حوالے سے بتاتے ہوئے مجید قریشی کا کہنا تھا کہ بہت ہی سادہ سی غذا وہ لیتے تھے بیف اور قیمہ ان کو پسند تھا کبھی وہ جیل میں بھی بنوالیا کرتے تھے اور باہر سے بھی ان کو اجازت تھی تو کبھی ان کا کھانا پی سی سے بھی آجاتا تھا ۔ان کا جو کک تھا بشیر اکثر وہ بھی ان کے لئے کھانا بنا کر لایا کرتا تھا جس کو باقاعدہ چیک کرکے ان کو دیا جاتا تھا تاہم حقیقت یہ ہے کہ بھٹو صاحب کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے ۔ اس سوال کہ بھٹو صاحب دوران اسیری کون کون سی کتابیں پڑھا کرتے تھے کے جواب میں سابق اسسٹنٹ جیل سپرٹنڈنٹ مجید قریشی کا کہنا تھا کہ زیادہ تر وہ سیاسی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے جبکہ ان کے پاس ٹائمز رسالہ اور کبھی کبھی ہیرالڈ اخبار بھی آیا کرتا تھا ۔انہوں نے ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ میگزین میں ان کی ضیاء الحق کے ساتھ ایک تصویر شائع ہوئی تھی بھٹو صاحب نے نے وہ میگزین چائے اور دو بسکٹ کے ساتھ مجھے بھجوایا اور کہا کہ اس میں ایک مضمون چھپا ہے اس کو پڑھو ۔ قبل اس کے کہ میں وہ مضمون پڑھتا میری نظر رسالے کے سرورق پر پڑھی جس میں ضیاء الحق کی یونیفارم میں تصویر تھی اور دوسری طرف بھٹو صاحب کی تصویر موجود تھی اور دونوں کے درمیان میں ایک رسا لٹکا ہوا تھا ۔ جس پر میں نے فوری طو رپر رسالہ اٹھایا اور چائے بھی ہاتھ میں پکڑے بھٹو صاحب کے کمرے میں جا پہنچا تو دیکھا وہ اپنے کمرے میں بیٹھے کچھ لکھنے میں مصروف تھے مجھے دیکھ کر کہا تم نے وہ مضمون پڑھا جس پر میں نے کہا سر آپ نے سرورق دیکھا ہے جس پر انہوں نے کہا کیا مطلب ہے تمہارا میں نے کہا سر رسا ایک بندے دو جس پر بھٹو صاحب تھوڑے سے اپ سیٹ ہوگئے جس پر میں وہ رسالہ ان کو دیکر باہر آگیا ۔ مجید قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب نے اپنے دفاع میں خود بولنے کا انتخاب کیا، بھٹو صاحب نے کہا کہ مجھ پر الزام ہے کہ میں نے ایف ایس ایف کے ان چار ملزمان کے ساتھ مل کر احمد رضا قصوری کو مارنے کی سازش کی تھی جو آج سلطانی گواہ ہیں، احمد رضا قصوری بچ گیا اور ان کے والد احمد رضا خان ہلاک ہوگئے،بھٹو صاحب نے عدالت کی اجازت سے گواہان سے سوالات کیے، ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے پہلے گواہ ڈی آئی جی پولیس میاں غلام عباس سے پوچھا کہ کیا آپ کی بیس سالوں کی نوکری میں میری طرف سے آپ کو کوئی پیغام گیا کہ میرا یہ کام کردیں یا میری طرف سے کوئی چٹ آپ کو بھیجی گئی ہو؟، میاں غلام عباس نے کہا، نہیں۔ بھٹو صاحب نے عدالت سے کہا کہ میں نے اس شخص کو نہ آج تک کسی کام کیلئے فون کیا،نہ چٹ بھیجی، نہ میری طرف سے کسی شخص نے اسے کوئی کام کرنے کیلئے کہا گیا، اس کا مطلب اس شخص نے یہ سب کچھ کسی اور کے کہنے پر کیا ہے، بھٹو صاحب نے باقی تین گواہان جو سپاہی تھے ان سے کوئی سوال نہیں کیا، ان تین گواہان میں سے ایک غازی غلام مصطفیٰ کھڑے ہوگئے انہوں نے گلے میں قرآن پاک کا نسخہ ڈالا ہوا تھا، انہوں نے جج کو مخاطب کرکے کہا کہ جج صاحب میں اس قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر ہم نے گولی چلائی تھی اور اس کی وجہ سے احمد خان قتل ہوئے تھے اور رونا شروع کردیا۔ مجید قریشی نے بتایا کہ اکتیس مارچ کو مجھے کہا گیا کہ ایک اہم آدمی لاہور سے آرہا ہے اسے ریسیو کریں، میں جب ایئرپورٹ گیا تو ٹریفک انسپکٹر حبیب میری جیپ جہاز کے پاس لے گیا، جہاز سے ہوم ڈیپارٹمنٹ کا وہ سیکشن افسر اترا تو رحم کی اپیلوں کو ڈیل کرتا ہے، وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اور مجھے وزارت داخلہ چلنے کیلئے کہا، وزارت داخلہ میں ڈپٹی سیکرٹری سبط حسن نقوی کے کمرے میں ان کے ساتھ گیا، اس نے اپنے بریف کیس میں گلابی رنگ کا لفافہ نکالا، گلابی رنگ کا لفافہ ان دنوں صرف سزائے موت کے قیدیوں کیلئے استعمال ہوتا تھا، میرے ذہن میں بات آئی کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کا پروانہ ہے۔