• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سرِورق پر پُورا سال

ریٹائرڈ افراد اور اخبار، چائے کا تو گویا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر میرا مَن بھاتا کھاجا آپ کا ہفت روزہ ’’سنڈے میگزین‘‘ ہے کہ اِدھر جریدہ آتا ہے، اُدھر پُورا کھنگال لیا جاتا ہے لیکن تشنہ لبی ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ خصوصاً ’’سال نامے‘‘ کا تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ ایک سرِورق پر پُورا سال سمو دینا ہرگز کوئی آسان امر نہیں تھا، پھر جس طرح تجزئیات، تبصرے پیش کیے گئے۔ جب کہ آپ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ تو گویا جریدے کے ماتھے کا جھومر ٹھہرا۔ آخر میں پسندیدہ صفحے میں سال کی بہترین چٹھی کی حق دار شائستہ اظہر ٹھہریں۔ مبارک ہو بہت۔ ویسے آپ نے سال بھر کے خطوط سے متعلق جو عرق ریزی کی، وہ بھی کمال ہی تھی۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، لیّہ)

ج: چلو، اچھا ہے، تشنہ لبی ختم نہیں ہوتی، تب ہی تو اگلے جریدے تک بات جاتی ہے۔ ایک بار سیر ہوجائو گی تو اگلا شمارہ کیوں کر خریدو گی۔ ویسے سال نامے کی پسندیدگی، ہماری محنتوں کی قدر و توصیف کا بے حد شکریہ۔

تعداد 39 کیسے ہوگئی…؟؟

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ورک فورس خیریت سے ہوگی۔ ’’سالِ نواسپیشل ایڈیشن‘‘ کا سرِورق دیکھتے ہوئےصفحہ پلٹا توسامنے ’’حرفِ آغاز‘‘ پایا۔ بےشک، آپ نےبہت زبردست تحریر قارئین کی نذرکی، جوکم ازکم مجھے تو بہت ہی پسند آئی، خصوصاً آخر میں جو دُعائیہ اشعار تحریر کیے کہ ؎ اِس برس ہر بلا، ہر وبا ٹال دے… اب حقیقت میں ہم کو نیا سال دے۔ نعیم کھوکھر، ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب، منور مرزا، محمّد اویس یوسف زئی، فاروق اقدس اور محمّد بلال غوری سب ہی کے تجزیئے انتہائی مدلّل و مکمل تھے۔ منور راجپوت نے پچھلے سال کی کچھ یادگار تصاویر ’’کِلکس‘‘ کی صُورت پیش کیں، جن میں سے کچھ سے متعلق تو مَیں بالکل لاعلم تھا۔

بہرحال، رئوف ظفر، منور راجپوت، امین اللہ فطرت اور ارشد عزیز ملک نے صوبوں کا منظرنامہ بھی نہایت عُمدگی سے سامنے رکھا اور اب آئیے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جس میں ہمارا خط شامل تھا، بہت بہت شکریہ۔ پھر سال نامہ (حصّہ دوم) کا آغاز ہی ’’آزاد کشمیر‘‘سےکیا گیا، دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ راجا حبیب اللہ خان نے سالِ رفتہ کا اچھا تجزیہ پیش کیا۔ ہاں، ایک غلطی بھی نوٹ کی گئی۔ انہوں نے لکھا کہ’’25جون کو 27وزراء نے حلف اُٹھایا۔ بعدازاں، مزید دو خواتین نے بھی حلف لیا، تو کُل تعداد39ہوگئی۔‘‘ تو یہ تعداد بھلا 39 کیسے ہوگئی؟ ’’جمع تفریق‘‘ میں منور مرزا نے کوئی پہلو تشنہ نہ رہنے دیا۔ ’’ان اینڈ آئوٹ‘‘ کے تحت ڈاکٹر ناظر محمود کی رپورٹ دل چسپ تھی۔ ’’علاج معالجہ‘‘ بھی نہایت عُمدگی سے مرتب کیا گیا۔

عنبریں حسیب اور رائو محمّد شاہد کے مضامین بھی لاجواب تھے۔ اورسال نامے کے تیسرے حصّے میں ’’آفات‘‘ پر وحید زہیر نے روشنی ڈالی، جب کہ طارق ابوالحسن نے فلسطینی مزاحمتی تحریک، حماس کے ترجمان اور اہم رکن، ڈاکٹر خالد قدومی سے ایک ایکس کلوسیو انٹرویو کیا۔ ’’وجودِ زن‘‘ میں رؤف ظفر تو خواتین کےغم میں گُھلتے نظر آئے۔ ’’نسلِ نو‘‘ کے عنوان سے طلعت عمران نے عُمدہ تجزیہ پیش کیا۔ ’’سلوراسکرین‘‘ پر مدثراعجاز نے قلم کُشائی کی، تو انتہائی حیران کُن طور پر ’’ٹی وی اسکرین‘‘ پر جائزہ رپورٹ ایڈیٹرصاحبہ نے تیار کی اور نہ صرف تیار کی بلکہ میرے خیال میں تو ایسی جان دار و شان دار تحریر لکھ کربس قلم ہی توڑ دیا۔ نیز،’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اپنا اور بے کار ملک کا خط پاکر تو دل باغ باغ ہی ہوگیا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی 3، کراچی)

ج: آپ نے ’’آزاد کشمیر‘‘ کے ضمن میں بالکل درست نشان دہی کی۔ کُل تعداد 29 کےبجائے سہواً39لکھ دی گئی۔ نشان دہی کاشکریہ، ویسے آپ کا اِس عرق ریزی سے مطالعہ بھی قابلِ صد ستائش ہے۔

طول طویل انٹرویوز کیوں؟

تازہ سنڈے میگزین میں منور مرزا، محمود میاں نجمی کے تحریر کردہ مضامین ہمیشہ کی طرح بہت ہی شان دار تھے۔ ہاں، سیّد امین الحق کی ’’گفتگو‘‘ کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی تھی۔ ایک تو میگزین کےصفحات کم ہیں، اُس پر اگر اس قدرطول طویل انٹرویوز ہوں گے، تو قارئین کوپڑھنے کا مواد بہت کم میسّر آئے گا۔ سرِورق کی ماڈل کا جواب نہ تھا، بہت خُوب صُورت انداز سے فوٹو گرافی کی گئی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فوزیہ ناہید سیال کی سینڈوچز کی تراکیب کا جواب نہ تھا۔ 

سچ تو یہ ہے کہ اگر کھانے پینے کی تراکیب شامل ہوں، تو صفحے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کا ’’نیا سال‘‘ اور ذکی طارق بارہ بنکوی کی ’’نئے سال کی مبارک باد‘‘ خُوب تھی۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں پروفیسر سیّد منصور علی خان کے پیغامات بہت ہی پسند آئے۔ بلاشبہ، یہ بزرگ نامہ نگار جریدے کی بزم کی رونق ہیں۔ اور ہاں، اس مرتبہ آپ کا صفحہ اور گوشہ برقی خطوط میں آپ نےایک سےبڑھ کر ایک جوابات دئیے، بخدا پڑھ کے لُطف دوبالا بلکہ سہہ بالا ہوگیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: عموماً انٹرویوز ایک سے ڈیڑھ صفحات ہی پر محیط ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھار کسی ایسی شخصیت کا انٹرویو بڑھانا بھی پڑجاتا ہے، جس نے جوابات دل چسپ، مفصّل دیئے ہوں اوراُن میں قارئین کے لیے بھی معلومات اور دل چسپی کاعُنصر موجود ہو۔

ارضِ فلسطین کا نوحہ

آپ کے شایانِ شان ’’السلامُ علیکم‘‘ کہتی ہوں۔ پھولوں کا انتخاب، چنائو بڑے مستحسن انداز سے کرنے والے شاذو نادر ہی ملتے ہیں، جیسا کہ جنگ، سنڈے میگزین اس قدرخُوبی و عُمدگی سے مرتّب کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ ہردل عزیز جریدہ ہے۔ اپنے پسندیدہ ترین صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘میں اپنا نام دیکھ کر تو دل کی کلی کھل اُٹھی، آپ کا بےانتہا شکریہ۔ ارضِ فلسطین کا نوحہ ’’حرفِ آغاز‘‘ میں پڑھا، دل کٹ کے رہ گیا۔ نعیم کھوکھر نے ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ کا تجزیہ انتہائی درد مندی و دل سوزی سے پیش کیا۔ پاک افواج، بساطِ عالم، عدالتِ عظمیٰ، خارزارِ سیاست، ایوانِ نمائندگان اورصوبوں کے جائزوں پر مشتمل سب ہی تحریریں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ ’’کلکس‘‘ کی صُورت پورے سالِ رفتہ کی عکّاسی کا جواب نہ تھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا تو پھر کوئی مول ہی نہیں ہے۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج:’’السّلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ ایک عظیم الشان دُعا ہے، جو ہمیں دینِ اسلام نے سکھائی ہےاورجس کا ترجمہ ہے کہ’’آپ پر سلامتی، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں کا نزول ہو۔‘‘ یہ دُعا تو ہر مسلمان کے لیے ایک تحفہ، ایک نعمت ہے۔ تو ہم کیا، اور ہماری بساط کیا۔

جریدے کا ساتھ، نعمت و غنیمت

اُمید ہے کہ آپ اور تمام قارئین خیروعافیت سے ہوں گے۔ موسم نے اچانک کچھ ایسی کروٹ لی کہ سخت سردی نے گھروں میں محصور کرکے رکھ دیا اور ایسے میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کا ساتھ کیسا نعمت وغنیمت معلوم ہوتا ہے، آپ اندازہ نہیں لگا سکتیں۔ سو، اس بار تو جریدے کا لفظ لفظ پڑھ ڈالا۔ تھینک یو سو مچ سنڈے میگزین!! (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، ضلع شکارپور، سندھ)

انٹرویوز کب شائع ہوں گے؟

4 فروری ، 11 فروری کے شمارے بہترین تھے۔ پوچھنا یہ تھا کہ آپ بیرسٹر گوہر علی، لطیف کھوسہ، سراج الحق اور حافظ نعیم کے انٹرویوز کب شائع کریں گی۔ ٹیچرز سوسائٹی پر فیچر کب شائع ہوگا، آپ ووٹ کس کو دیں گی اور یہ کہ ہم دونوں کے انٹرویوز کی اشاعت کا کوئی امکان ہے۔ کب سنڈے میگزین اس قدر خُوب صُورت ہوگا کہ سرِورق پر ہم دونوں کی تصاویر دیکھنے کو ملیں گی ۔ اور کیا انٹرویوز کی اشاعت کے لیے کوئی معاوضہ وغیرہ دیناپڑتا ہے۔ (شہناز سلطانہ، رمشہ طاہر، ٹیچرز سوسائٹی، گلزارِ ہجری، کراچی)

ج: گرچہ ہم نے تہیّہ کیا تھا کہ اب آپ کے بچکانہ خطوط کا کوئی جواب نہیں دیں گے کہ پھرلوگ ہمیں ہمارے سخت جوابات ہی کے تناظر میں جانچنے، پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بخدا اب تو ہم بہت سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں، استاد جیسے قابل احترام، باوقار منصب پر فائز ہیں، سیاسی و سماجی شعور بھی رکھتی ہیں تو کیا پھر ارادتاً اس قسم کے خطوط لکھ لکھ کے بھیج رہی ہیں۔ اوراگربھیج ہی رہی ہیں، تو کیا ہمارے جوابات پڑھنے کی زحمت نہیں کرتیں۔ کوئی نہ کوئی مسئلہ توبہرحال ضرور ہے۔ اور آپ کے فوٹو شوٹس کے ساتھ، آپ کے انٹرویوز بھلا کیوں شائع ہوں گے۔ ایسا بھی کیا معرکہ مارا ہے آپ نے۔ اور انٹرویوز کے لیے ہمارا پیمانہ صرف اور صرف ’’میرٹ‘‘ ہے، یہاں معاوضے وغیرہ کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔

گوناگوں مصروفیات کے سبب

بچپن سے آپ کااخبار پڑھتے آرہے ہیں۔ لکھنے کا شوق بھی زمانۂ طالب علمی سے ہے، مگر گوں نا گوں مصروفیات کے سبب کبھی اشاعت کے لیے نہیں بھیج پاتا۔ بہرحال، آج اپنی کہی ہوئی ’’نعت شریف‘‘ سنڈے میگزین کے لیے بھیج رہا ہوں۔ آپ کی طرف سے حوصلہ افزائی ہوئی، تو مستقل تحریریں بھیجتا رہوں گا۔ (پروفیسر شفقت پاشا، سعدی ٹائون، ملیر کینٹ، کراچی)

ج: نعت شریف موزوں ہوئی، تو شائع کردی جائے گی۔

ایک بار نہیں، بار بار پڑھا

عمرے سے وطن واپسی پر، 14 جنوری کے شمارے میں اپنا خط شائع ہوا دیکھ کر دل بَھر آیا۔ حسبِ معمول، اپنا خط پڑھنے سے پہلے، آپ کا جواب یعنی سال 2024 ء کا پیغام پڑھنے کے لیے بےتاب ہوئی کہ گو اس دفعہ، عُمرے پر روانگی کے سبب آپ کو اپنا دُعائوں بَھرا پیغام نہیں بھیج سکی تھی۔ لیکن آپ کا نئے سال کا پیغام، جواب کی صُورت ایک بار نہیں، دوبار نہیں، باربارپڑھا۔ آپ نے لکھا ’’ہماری گزارشات سے آپ کی دل شکنی مقصود نہیں‘‘ تو نرجس! بیٹے کی وفات سے لے کر اب تو وہ دل ہی نہیں رہا، تو دل شکنی کیسی۔ بس، درِکعبہ پر رو رو کر اپنی خطائوں کی معافی مانگتی رہی اور اپنوں، غیروں سب کے لیے جھولی پھیلا کر خوب دُعائیں کیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: جزاک اللہُ خیراً کثیرا۔ اللہ رب العزت آپ کے دل کو صبر و قرار دے۔

تبصرہ کرنے کی دعوت

اُمید ہے، مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ مَیں کئی سال سے روزنامہ جنگ اور سن ڈے میگزین کا مستقل قاری ہوں۔ میگزین کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر آپ، بہت پُرزور انداز میں قارئین کو میگزین کے ہرصفحے سے متعلق اپنی رائے قائم کرنے اورتبصرہ کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ساتھ ہی قارئین کو اچھے مضامین بھیجنے کی طرف رغبت بھی دلائی جاتی ہے۔ نیز، بھیجے گئےمضامین شائع کرکے حوصلہ افزائی بھی فرمائی جاتی ہے۔ 

تین سال سے دلی خواہش تھی کہ مَیں بھی اس سفر میں آپ کی ہم رکابی کا شرف حاصل کروں اور اپنے مافی الضمیر کو اچھے اوربہترین انداز میں قارئین کے سامنے پیش کروں، لیکن یہ خواہش، خواہش کی حد تک ہی محدود رہی۔ بہرحال، آج الحمدُللہ اس خواہش و تمنا نے بالآخر حقیقت کا رُوپ دھار لیا ہے۔ یہ میرا آپ کو پہلا خط ہے اور اس کے ساتھ ایک مضمون بھی منسلک کرکے بھیج رہا ہوں، جو میرا کسی بھی جریدے کے لیےپہلا مضمون ہے، اُمید ہے شائع کر کے حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ اشاعت کے قابل اور ناقابلِ اشاعت ہر دوصُورتوں میں جواب کا منتظر رہوں گا، اور پلیز، میری قابلِ اصلاح باتوں کی طرف توجّہ دلا کربھی ممنون فرمائیں۔ (عبداللہ فاروق، لورالائی)

ج: باقی تو آپ کی ہر بات برحق، مگریہ جو آپ نے اتنے یقین سے فرمایا کہ ’’ہمیں پتا ہی ہوگا کہ آپ جنگ اور سنڈے میگزین کے دیرینہ قاری ہیں‘‘ اِس پر ہمیں ذراسا اعتراض ہے کہ ’’ہمیں پتا ہی ہوگا‘‘ نہیں، ’’ہمیں آج ہی پتا چلا ہے‘‘۔ بہرحال، آپ کی تحریر قابلِ اشاعت ہوئی تو ضرور شائع ہوجائے گی، بصورتِ دیگر بھی آپ کو پتا چل ہی جائے گا۔

              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سلام مسنون! آپ سمیت جملہ اسٹاف، بمع قارئین، بخیریت وبعافیت ہونے کا متمنّی ہوں۔ سالِ نو کا دوسرا شمارہ اپنی مثال آپ تھا۔ ’’آزاد کشمیر‘‘ کےراجا حبیب اللہ خان کےمطابق ’’زرد موسم میں بھی یہ شاخیں ہری رہتی ہیں…‘‘ اور پھراِس خطۂ بےنظیر کے سالِ گزشتہ کا مکمل احوال تفصیلاً نذرِقارئین کیا۔ منورمرزانے فرمایا کہ ’’وہ قرض اتارے ہیں، جو واجب بھی نہیں تھے…‘‘ موصوف اقوامِ عالم کا خُوب پُرمغز ومدلّل تجزیہ نہایت احسن اندازمیں لےکر حاضر ہوئے، بہت شکریہ جناب!! اسلام آباد سے ڈاکٹر ناظرمحمود نے’’ان اینڈ آئوٹ‘‘ میں مُلک بھر کے اہم مناصب پر بدلتے چہروں، غیرمتوقع واقعات اور الم ناک سانحات پر کیا خُوب طائرانہ نظرڈالی۔’’علاج معالجہ‘‘میں بابرعلی اعوان گویا تھے۔’’بےدم ہوئےبیمار،دوا کیوں نہیں دیتے…‘‘ تو بھئی، صاحبانِ اقتدار کے پاس غریب غرباء کے لیے کوئی دوا دارو، علاج معالجہ ہو، تو وہ دیں۔ 

اُن کے پاس تو بس طِفل تسلیاں، جھوٹے وعدے، دعوے، سنہرے باغ ہی ہیں، تو وہ عوام کی جھولیاں اِن ہی سے بَھرسکتے ہیں۔ ’’ادب / نگارشات‘‘ کے لیے عنبریں حسیب عنبر نے مُژدہ سُنایا کہ ’’انتشار میں یہ ذکرِ خامہ و قرطاس ہے…‘‘ اور رپورٹ میں سال بھر کے ادب کا جملہ احوال، جس میں علمی و ادبی تقاریب، شان دار تخلیقات اور بہترین نثرپاروں کا ذکر تھا، نہایت عُمدگی سے رقم کیا گیا۔ جب کہ ہلکے شفتالو رنگ میں خوب رُو ماڈل، علیزہ انصاری نے تو جیسے سارے میگزین کے قارئین ہی کو یک دَم اپنی جانب متوجّہ کرایا۔ 

ایک تو فوٹو شوٹ کمال،اُس پر سونے پہ سہاگا،آپ کا کلاسیکل رائٹ اَپ۔ کراچی سے محمّد ہمایوں ظفر نے سال 2023 ء میں داغِ مفارقت دے جانے والی اہم قومی و بین الاقوامی شخصیات کی جدائی کا قصّہ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ کی صُورت سُنا کر مجھ سمیت ہرقاری ہی کو رنجیدہ کردیا۔ آہ! واقعی ایک نہ ایک دن ہر ایک ذی روح نے اِس عالم ناپائیدار کو چھوڑ جانا ہے۔ منور راجپوت نے ’’نئی کتابیں‘‘ میں ’’تاریخِ تصوّف‘‘ (جو کہ درحقیقت علامہ اقبال کی نامکمل تصنیف تھی) اور دیگر کتب کا بہترین تعارف پیش کرکے، نئی کتب خریدنے پر اُبھارہی لیا۔ 

سچ ہے کہ کتاب آج بھی بہترین رفیق ہے اور ’’سائنس آئی ٹی ‘‘ کے لیے رائو محمّد شاہد اقبال کا تجزیہ تو پورے جریدے کی جان تھا۔ ایسی عُمدہ تحریر رقم کرنے پر ایک بھرپور شاباش تو بنتی ہے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ طلعت عمران نے احسن انداز سے مرتّب کیا۔ اور اب آتے ہیں، ’’آپ کاصفحہ‘‘پر، جہاں صدرِمجلس(بزمِ خطوط) محترم ضیا الحق قائم خانی تھے، بہت عُمدہ! تسلسل برقرار رکھیے محترم۔ (عاجز داد فریادی ابنِ غلام نبی (مرحوم)، سبّی روڈ، کوئٹہ، بلوچستان)

ج: اور آپ بھی تسلسل برقرار رکھیے محترم!!

گوشہ برقی خطوط

* مَیں نے تو بھئی، صحیح معنوں میں آپ کے اخبار اور جریدے سے عشق کیاہے۔ ابّا نے منہگائی کے ہاتھوں عاجز آکرلگ بھگ سارے ہی رسائل بند کروا دئیے ہیں، حتیٰ کہ آپ ہی کے گروپ کا ایک مقبول ترین میگزین بھی، لیکن مَیں نے رو پیٹ کے یہ اتوار کا جنگ اخبار بند نہیں ہونے دیا کہ اِس کے ساتھ میرا دیرینہ ساتھی ’’سنڈے میگزین‘‘ جو آتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اِس دَور میں بھی مجھے ’’ نیٹ ایڈیشن‘‘ سے بس ایک چڑ سی ہے۔ (حریم فاطمہ، میرپور، آزاد کشمیر)

ج: بس، یہ تم جیسے ہی کچھ سچّےعُشّاق ہیں، جن کی بدولت نہ صرف یہ جریدہ نکل رہا ہے، بلکہ ہم بھی جیسے تیسے سروائیوکر ہی رہے ہیں۔

* تازہ جریدے میں میں منور مرزا انتخابات کے بعد کا منظر نامہ پیش کرتے نظرآئے۔ اگلے صفحے پر ہدایت کے سرچشمے میں جنّات کا قصّہ پڑھنےکوملا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ریڈیو پاکستان کے شان دار ماضی، لیکن تاریک مستقبل کی حوالے سے خصوصی تحریر سامل تھی، جسے پڑھ کرمعلومات میں خاصااضافہ ہوا، خالد ارشاد صوفی کے سفرنامے کی دوسری قسط پڑھ کر مجھے بھی سیاحت کا شوق چرایا۔ ناقابل فراموش کی تینوں ہی تحریریں کچھ خاص پسند نہیں آئیں۔ نیز، ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ’’دشت برفاب میں‘‘ بھی ایویں ہی سی تحریر تھی۔ ہاں، آپ کا صفحہ میں میرا خط بھی موجود تھا، جسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اورتب ہی یہ پانچویں ای میل بھی لکھ ماری، مطلب ٹائپ کی۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھو پیر، کراچی)

* مَیں اپنی ایک کہانی ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شائع کروانا چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ مَیں کس برقی پتے پرکہانی بھیجوں اور کون سافارمیٹ آپ کے لیے قابلِ قبول ہے؟ شکریہ۔ (فاطمہ شکیل)

ج: آپ اِسی برقی پتے پر اپنی کہانی بھیج سکتی ہیں۔ اُردو اِن پیج میں بھیجیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔ ویسے ورڈ کی فائل بھی قابلِ قبول ہوتی ہے، بس اُس میں کچھ الفاظ کی املا بگڑ جاتی ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk