اسلام آباد (انصار عباسی) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور میں پہلے سے ہی سخت حفاظتی انتظامات کی حامل جی او آر ون میں قیام کے دوران اس بات کا نوٹس لیا کہ افسران کی رہائش گاہوں کے باہر غیر قانونی طور پر گارڈ رومز تعمیر کیے گئے ہیں لیکن بعد میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ زیادہ تر قابل اعتراض تعمیرات لاہور ہائی کورٹ کے 17؍ جج صاحبان کے گھروں کے باہر موجود ہیں۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پنجاب حکومت کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تشویش سے آگاہ کیا جس کے جواب میں پنجاب حکومت نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ سے رابطہ کرکے ان سے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ کے 17؍ ججز کی رہائش گاہوں کے باہر سے گارڈ رومز ختم کر دیں۔
چیف جسٹس کی طرف سے موصول ہونے والی ہدایت کے بعد، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے اسی دن لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے 17 ججوں کی رہائش گاہوں کے باہر سے گارڈ رومز ہٹانے کی درخواست کی۔
خط میں تمام 17 ججوں کے پتے شامل تھے، جہاں گارڈ رومز ہٹانے یا رہائش کے احاطے میں منتقل کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جی او آر ون میں چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور سیکرٹری داخلہ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور حکومت اس بات کی خلاف ورزی کر رہی ہو جس کی نشاندہی چیف جسٹس نے کی ہے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 20؍ اپریل کو چیف سیکرٹری پنجاب کو خط لکھ کر کہا کہ چیف جسٹس پاکستان عہدہ سنبھالنے کے بعد 15؍ سے 19؍ اپریل 2024 تک لاہور میں عدالت چلانے آئے اور جی او آر میں چیف جسٹس کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔ خط میں مزید لکھا تھا کہ چیف جسٹس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جی او آر کی حالت تبدیل اور بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جی او آر میں داخلہ سیکورٹی چیکنگ کے بعد ملتا ہے تو ایسی صورت میں کھلے سبز علاقوں میں غیر قانونی طور پر گارڈ رومز کیوں بنائے گئے ہیں۔ اگرکسی کو گارڈ کی ضرورت ہے تو اسے اُس افسر کے گھر کے احاطے میں ہونا چاہئے جسے اس گارڈ کی ضرورت ہے۔
خط کے مطابق، جی او آر کے اندر ہر رہائش گاہ کے ارد گرد تعمیر کردہ غیر قانونی دیواروں اور اس غیر ضروری اخراجات پر چیف جسٹس پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے، کیا پہلے سے محفوظ جی او آر کے اندر دیواروں پر عوامی وسائل خرچ کرنا جائز ہے؟ باڑ لگانے کا عمل ترک کیوں کیا گیا ہے؟
خط میں اس معاملے پر جواب طلب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جی او آر اندر عمارتوں اور دیواروں کے حوالے سے قابل اطلاق اصول و ضابطے فراہم کیے جائیں۔
اس صورتحال پر سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ (ایس اینڈ جی اے ڈی) نے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھا اور کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے حال ہی میں جی او آر میں اپنے قیام کے دوران اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کھلے سبزے والے علاقہ جات میں رہائش گاہوں کے باہر غیر قانونی گارڈ رومز کیوں تعمیر کیے گئے ہیں۔
خط میں درخواست کی گئی ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے گارڈ رومز اور چوکیاں ختم کرنے کیلئے ضروری اقدامات کریں اور یہ چوکیاں اور گارڈ رومز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کی رہائش گاہوں کے اندر منتقل کر دیں۔
ایس اینڈ جی اے ڈی نےاپنے خط میں جی او آر ون میں مقیم لاہور ہائی کورٹ کے 17؍ جج صاحبان کے پتے بھی شامل کیے ہیں اور رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ سے اس معاملے پر جلد کارروائی کی درخواست کی ہے۔