نوجوان سیاسی طور پر پوری طرح بیدار ہیں۔ سوشل میڈیا کی خرابیاں اپنی جگہ پر لیکن جیسا وہ باخبر ہیں ایسا کوئی دوسرا نہیں۔ نوجوان کیا چاہتے ہیں یہ بھی سمجھنا کسی کے لئے دشوار نہیں ، بس شرط یہ ہے کہ وہ سمجھنا چاہیں۔
دادا مریں گے تو بیل بٹیں گے ۔ اور دادا ہیں کہ جئے چلے جا رہے ہیں۔ بیٹوں کو کچھ نہیں ملا ۔ کئی تو امید لئے دارفانی سے کوچ کر گئے ۔ اب پوتے بھی ادھیڑ ہو چلے ہیں ،لیکن دادا زندگی میں تو دھیلا دینے کو تیار نہیں۔ وطن عزیز پر بوڑھوں کا قبضہ ہے، ساٹھ سے کم کوئی ہے ہی نہیں اور اپنے زعم میں ساٹھا تو پاٹھا۔ ستر سے اوپر والا جو سترے بہترے ہوچکا ہے وہ دوسری مرتبہ ،تیسری دفعہ یا چوتھی بار صدر، وزیر اعظم، اسپیکر، وزیر، سفیر بننے کی تگ دو میں لگے رہتے ہیں، اور اپنا مقصدپا بھی لیتے ہیں، جو غیر منتخب ہوتے ہیں، انہیں ایکسٹنشن چاہئے۔ وزیر ہوگا تو خضاب بھر اسر، اسمبلیوں کا ممبر ہوگا تو گردن ہل رہی ہوگی۔ اگر کوئی ساٹھ سے نیچے کا نظر آجائے تو وہ کسی سیاستدان کا بھتیجا یا کسی آمر کا پوتا ہوگا۔
نوجوانوں کا راستہ روکنے کا پہلا وار تو یہ کہ ڈھائی کروڑ بچوں کے لیئے اسکول ہی نہ کھولو،جن ڈھائی کروڑ کے لئے اسکول ہیں یا تو وہ گھوسٹ اسکول یا ٹیچرز غائب، اسکولوں میں بھینس بندھی ہیں یا ایسے بھرتی کیئے ہوئے ٹیچرز ہیں، جن کے پاس خود جعلی ڈگری ہے۔ دوسرا حربہ یہ ہے کہ بجٹ کا دو فیصد بھی تعلیم پر خرچ نہ کرو۔ تیسری واردات یوں کہ انہیں وہ پڑھائو جس کی انہیں ضرورت نہیں۔ تاریخ پڑھاؤ تو جو واقعہ ہوا ہی نہیں اور جو ہوا، اس کا بلیک آوٹ۔ جغرافیہ مجبوری کا اور سائنس وہ کہ زمین ساکت ہے یا سورج گردش کر رہا ہے۔ رہا حساب تو وہ بنئیے کرتے ہیں۔
جو اسکول سے لشتم پشتم نکلا اس کے لئے دو سال کا کالج جہاں کے برے بھلے جیسے بھی اساتذہ ملازم ہیں وہ ٹیوشنیں پڑھا رہے ہیں، کوچنگ سینٹرز چلا رہے ہیں۔ کالج بھائیں بھائیں کررہے ہیں۔ اور کوچنک سینٹرز میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ اصول یہ کہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا ۔ پڑھائی ہوتی رہے گی، پہلے گڑ کا انتظام کرو۔ بیچارہ نوجوان، گرتا پڑتا وہاں سے نکلا تو پرائیوٹ یونیورسٹی کے ہتھے چڑ ھ گیا۔
یہاں بریف کیس ٹیچروں کا سکہ چلتا ہے۔ وہ صبح بنگلے والی یونیورسٹی ، دوپہر دو منزلہ مکان والی یونیورسٹی اور شام میں مین کیمپس والی ۔ کلاس لی ، بریف کیس اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔ نہ طالب علموں کا نام پوچھا ، نہ چہرے پر نظر ڈالی ، سوال جواب یا استاد شاگرد کا مکالمہ یہ تو خیالی دنیا کی باتیں ہیں اصل چیزہے Per Hour Payment" ـ"۔
جو سرکاری یونیورسٹیا ں ہیں وہاں گزارہ ہے۔ کچھ پڑھ بھی لے گا، آٹھ دس میں ایک دو ہمدرد استاد بھی ہوں گے۔ کوئی تیز مزاج ہوگا لیکن اپنے مضمون میں اچھا۔ لڑکے کا یہاں دوستوں کا حلقہ بن جا ئےگا۔ ہنسی مذاق اور جہاں بائیس گز خالی جگہ ملی وہا ں کرکٹ ۔ لیکن ان کی تربیت کا کیا نظام ہے؟ شعور کے پروان چڑھنے میں اداروں کا کیا کردار ہے؟
طلبا ء یونینوں پر پابندی کو چالیس برس بیت گئے۔ آئیں اور حکومتیں گئیں۔ جمہوری نما بھی اور سفاک آمریت بھی۔ وزیر اعظموں اور صدور کے ساتھ چیف ایگز یکٹو کی بھی حکومت رہی۔ کئیر ٹیکر کی بھی کمی نہیں ۔ لیکن کسی کو توفیق نہیں۔ عمر قید بھی ایک دن ختم ہوجاتی ہے ۔ عید، بقرعید پر معافیاں اور رہائیاں بھی ہوتی ہیں۔ رحم کی اپیل کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ لیکن رہائی نہ ملی تو طلباء یونین کو۔ حسرت رہی کہ وہ الیکشن میں جا تے، یونین بناتے ، اور ایک تجربے سے گزرتے۔
نہ مباحثہ ، نہ مکالمہ، نہ مشاعرہ ، نہ موسیقی ، نہ تھیٹر ۔ مصوری یا مجسمہ سازی تو کالجوں یونیورسٹیوں میں کبھی آئی ہی نہیں۔ اللہ جانے یہ دوتین آرٹ ویلی کیسے آج تک قائم ہیں، ورنہ جہاں موسیقی کے آلات وہاں ڈنڈا بردارجتھا۔
بھلے دنوں میں ریڈیو سے بزمِ طلبا ء نشر ہوتاتھا۔ کوئی ذہانت کی آزمائش، کوئی ادبی کاوش ، کوئی مقابلے کی صورت، پھر ریڈیو خود مرحوم ہوگیا۔ پی ٹی وی نے نوجوانوں کے پروگرام اچک لیے اور کچھ ٹیلنٹ سامنے آیا۔ روشنی کی ایک باریک سی لکیر دکھائی دی مگرکتنے دن ؟ پھر ٹی وی پر نعت خواں اور حمد خواں چھا گئے۔ پاپ میوزک کو دیس نکالا مل گیا۔ جب پرائیویٹ چینل آئے تو ہم پتھروں کے زمانے سے نکل کر اینکروں کے دور میں داخل ہوگئے۔ اب ہر طرف انکا بول بالا تھا ۔ یہ انہی چار مہمانوں کو بلاتے جو ایک دن ایک سیاسی پارٹی کے ترجمان ہوتے ،دوسرے دن مخالف پارٹی کے اور تیسرے دن تیسری پارٹی کے۔ اب نوجوانوں کے لئے صرف ساس بہوکے قضیئے اور سوتن کا سیا پارہ گیا۔
جب سارے دروازے بند ہوگئے تو اسمارٹ فون کی کھڑکی کھلی۔ قریب کی آوازیں ، دور کی آوازیں ، دیکھا بھا لا منظر ، اجنبی دنیائیں، کام کی باتیں اور خرافات کا انبار۔ جو چا ہو وہ سنو اور جو کہنا ہے اسکے لیے ٹک ٹاک کی زبان مل گئی۔ دل کے غبار کےلئے میمز اور کارٹون۔ لطیفے گھڑو ،جملے کسو۔رساگیروں کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکتے، مگر مذاق تو اُڑا سکتے ہو، دل تو جلا سکتے ہو لیکن اس سے پیٹ کا دوزخ تو نہیں بھرتا۔ روزگا ر تو چاہیے ۔سرکاری محکمو ں میں بھرتی پر پابندی ،جبکہ پرائیویٹ کمپنیاں صرف اچھی انگریزی اور ٹائی کی گرہ پر نوکر رکھتی ہیں، ورنہ وزیر کی یا سفیر کی سفارش لائویا اسی کمپنی میں کوئی چچا ، ماموں یا بہنوئی بیٹھا ہے تو مل سکتی ہے۔ اپنے کاروبار کےلئے نا تجربہ ہے نہ سرمایا، نوجوانوں کے لئے اسکیمیں آتی ہیں تو اندھا بانٹے ریوڑیاں، تم کو کیا ملے گا۔
اب ایک راستہ رہ گیا ،باہر نکل جائو۔ پچھلے پچاس سال سے ملک خالی ہو رہا ہے ۔ پہلے نوجوان تعلیم کیلئے انگلینڈیا امریکہ جاتے اور وہیں رہ جاتے ، جو حب الوطنی کا مارا ہوتا وہ واپس آتا ،اور دو سال دھکے کھانے کے بعد دوبارہ چلا جاتا۔ پھر دبئی چلو کا زمانہ آیا ۔ اب مزدور ، مستری ، انجینئیر ڈاکٹر، پروفیسر یا وائس چانسلر، اس کی سرکار میں پہنچے تو سب ایک ہوئے۔ ریال اور درہم سے شہر تو شہر گائوں میں بھی دو منزلے اور تین منزلے بن گئے ۔لیکن ملک سے علم و ادب ، رواداری اورخاندانی نظام اٹھ گیا ، ساتھ برکت بھی، پھر یونان میں کشتیوں کے الٹنے کا وقت آگیا۔ یہ وہ دورِ جدید ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
یہ پیرانِ تسمہ پا جو چند سو یا چند ہزار ہیں ، چوبیس کروڑکے کندھوں پر سوار ہیں ۔ اس میں جو ساٹھ فیصد پچیس سال سے کم کا نوجوان ہے، وہ جانتاہے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ وہ دنیا کے تقاضوں سے واقف ہے۔ وہ روس اور یوکراین کو دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل اور حماس کو پرکھ رہا ہے۔ وہ عرب اور عجم کی چپقلش کے نتائج بھی سامنے رکھے ہوئے ہے۔ اور امریکہ کے حواری بھی اس سے چھپے ہوئے نہیں۔ یورپ کا دوغلا چہرہ بھی ظاہر ہے۔ افغانستان میں جو کھیل جس سرکار نے اپنی کرسی اور اپنے پھندے سے بچنے کے لیے کھیلا چاہے ملک ، دہشتگردی کی نذر ہوجائے ۔ اقتدار کی میوزیکل چئیر گھومتی رہی ۔ سب سے پہلے پاکستان والے کے لئے اس کی اپنی ذات تھی۔ مفاہمت کے بادشاہ اپنے مقدمات اور محلات بچا لے گئے۔ اور جو ملک کو ذاتی بزنس سمجھتے تھے وہ دھوکہ دیتے دیتے خود دھوکہ کھاگئے۔
پرانی نسل جامد ہوچکی ہے ۔ وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جارہی ہیں۔ لیکن ذرا بدلنے کو تیار نہیں ۔ نئے خون سے خوف کھاتی ہے۔ نوجوانوں سے بدکتی ہے۔ طیارہ ہوا میں بکھر جائے۔ عدالت جاتی گاڑی راستہ بدل لے، یا قزاق اجل کا نقارا بجا دے ۔ ان کی گھٹی میں ہے کہ جو کھا سکتے ہو ، کھالو۔ اور جو نہیں کھا سکتے اسے گندے نالے میں بہا دو۔ ملک کی معیشت تباہ ہوجائے وہ قبول، پر کرسی رہے ، اختیار رہے، لوٹ مار رہے۔
زمانہ بدلتا ہے اور جو طرزِ کہن پر اَڑے رہتے ہیں انہیں بہا لے جاتا ہے۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے ۔ یہ طویل جنگ ہے جو نئی نسل کو لڑنا ہے۔ سوشل میڈیا ایک ہتھیار ہے، علم دوسراہے، اور یکجہتی تیسرا ہتھیار ہے۔ رہنمائی کی کمی ضرور ہے، مگر وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کو پیروں کا استادکردیا جائے۔