وہ روتی ہوئی ،بے تابی سے اپنے چاروں بچوں کو آوازیں لگاتی کبھی ایک کونے میں جاکر ایک بچے کا نام لے کر اُسے پکارتی تھی ، کبھی دوسرے کونے میں جاکر دوسرے بچے کو پکارتی ، کبھی بیٹی کا نام لیتی کبھی بیٹوں کو آوازیں دیتی، لیکن کہیں سے اس کی آواز کے جواب میں کوئی جواب نہیں آیا۔ اس سے پہلے وہ جب بھی بچوں کو پکارتی تھی تو فورا بچے دوڑتے ہوئے آتے تھے اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیتے تھے۔۔لیکن آج اس کی آواز کے جواب میں گھمبیر خاموشی تھی، وہ روتی جارہی تھی اور مکان کے ملبے کو دونوں ہاتھوں سے ہٹانے کی ناکام کوشش کررہی تھی لوگ اس کو پکڑ رہے تھے لیکن وہ اپنے ہوش میں کہاں تھی۔
وہ تو اپنے بچوں کے لئے آٹا لینے گئی تھی واپس آئی تو اس کے سجے سجائے گھر اور ہنستے کھلکھلاتے بچوں کی جگہ ملبے کا ڈھیر تھا ۔آٹے کا تھیلا تو نہ جانے کہاں پھینکا ،دل پر ہاتھ رکھ کر دوڑتی ہوئی آئی اور جہاں کہیں ملبے میں چھوٹی سی بھی درز نظر آئی وہیں بیٹھ کر بچوں کو آواز دیتی،چیختے چیختے اس کا گلا بیٹھ چکا تھا، ملبے کو کھرچتے کھرچتے اس کے ہاتھ زخمی ہوگئے تھے۔
وہ محمد، احمد، حسن اور مریم کی ماں تھی، وہ فلسطین کی ایک ماں تھی اور فلسطین کی مائیں تو ہر روز اپنے بچوں کے لاشے اٹھارہی ہیں۔ماں تو ماں ہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اس کا دل اپنی اولاد کے لئے ہی دھڑکتا ہے۔ اپنے بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے سمیٹتے اس کا بھی دل پھٹ گیا ہوگا، انہیں پلاسٹک کی شیٹوں میں لپیٹ کر اجتماعی قبروں میں دھکیلتے اس کا بھی یہ جی چاہا ہوگا کہ وہ بھی اس قبر میں کود جائے۔
رفع بارڈر پر موجود کیمپ میں سیکڑوں ایسی مائیں موجود ہیں جو آج اپنے خالی ہاتھوں اور خالی گودوں کے ساتھ بیٹھی ہیں ، بہت سی ایسی ہیں جنہوں نے اس کیمپ میں ہی اپنے بچے کو جنم دیا ہے اور اب ان کو زندہ رکھنے کے لئے تگ ودو میں مصروف ہیں۔ مغرب کے اس بنائے گئے مدرز ڈے پر یہ مغربی معاشرہ کیا ان ماؤں کو نہیں دیکھ رہا جو اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے قبروں میں دفن کر رہی ہیں ۔۔ایک بچہ مر گیا ہے تو دوسرا زخمی ہے، تیسرا زندگی اور موت کی دہلیز پر کھڑا ہے ،خود ماں زخمی ہے لیکن اپنے بچے کو بچانے کے لئے ڈاکٹر اور مدد ڈھونڈتی پھر رہی ہے یہ بھی تو ماں ہے ہمارے اور آ پ کے جیسی ماں، جو بچے کے کانٹا چبھنے پر بھی بے چین ہوجاتی ہے۔
ایسی ہی ایک ماں وہ بھی ہے، جس نے سات اکتوبر کو ہی اپنے بچے کو جنم دیا اور پھر ہسپتال میں حملہ ہوا تو اپنے ایک دو سال اور ایک نومولود بچے کو سنبھال کر بھاگی ،اور اسی حالت میں کبھی کسی کیمپ ،کبھی کسی پناہ گاہ، کبھی کسی مقام پر بھاگتی پھرتی ہے ، بچوں کے لئے دودھ نہیں ہے، غذا نہیں ہے،لیکن وہ ماں ہے ہمت نہیں ہارتی۔۔وہ کہتی ہے اپنے بچوں کے لئے کھانے کی تلاش میں میں پہاڑ بھی کھود دوں گی، لیکن اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مرنے دوں گی۔۔ماں وہ ہستی ہے ،جس کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں لیکن فلسطین میں ماؤں کا اور وہاں کے بچوں کا جو روپ دنیا نے دیکھا اس نے انہیں حیران کردیا ہے۔
جتنی بہادری سے یہ مائیں اپنے بچوں کو الوداع کہہ رہی ہیں اور زبان پر صرف حسبنا اللہ ہے۔۔یہ کس دنیا کی مائیں ہیں ، اور انہوں نے اپنے بچوں کی جو تربیت کی ہے اس نے اقوامِ عالم کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ یہ حوصلہ اور یہ ایمان تو ہمیں دورِ نبوی ﷺمیں اور صحابہ اکرامؓ اور ان کے اہلِ خانہ میں نظر آتا ہے۔ کیا ہمارے یہاں کی مائیں اپنے بچوں کی ایسی تربیت کر سکتی ہیں ؟کہتے ہیں ماں کا دل بہت نازک ہوتا ہے ، اولاد کو گرم ہوا بھی چھو جائے تو اس کا وجود کانپ جاتا ہے، لیکن کیا آپ نے اور میں نے ان ماؤں کی وڈیوز نہیں دیکھیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کے ٹکڑے سمیٹ رہی ہیں انہیں پلاسٹک بیگ میں ڈال رہی ہیں ،اپنی پلی پلائی اولاد کو ایک چھوٹے سے شاپر میں دیکھنا کسی عورت تو کیا مرد کا بھی پتہ پانی کردے گا۔
اللہ یہ دن کسی والدین کو نہ دکھائے، لیکن سلام ان ماؤں کو جن کے حوصلے چٹانوں کو بھی مات دیتے ہیں۔وہ بھی ایک ماں ہے اس کا بچہ کئی دن سے بھوکا ہے ، اب اس کی سانس رک رک کر آ رہی ہے، اس کی آنکھیں کھلی ہیں انسانیت کے علمبرداروں کے انتظار میں کہ شاید اس کو روٹی کے چند ٹکڑے یا دودھ کے چند قطرے مل جائیں ، اس کی ماں ننگے پاؤں کبھی ایک خیمے میںجاتی ہے کہ شاید وہاں کچھ مل جائے کبھی دوسرے خیمے میں جاتی ہے، سڑک پر دیوانہ وار دوڑ رہی ہے کہ کہیں کوئی مدد مل جائے کہ اس کے بچے کی سانسوں کی ڈور جڑی رہے لیکن کہیں کو ئی مدد نہیں۔
جب تک وہ واپس اپنے خیمے میں آتی ہے اس کے بچے کی وہ بچی کچھی سانسیں بھی اس کی گود میں دم توڑ دیتی ہیں،ا سکی کھلی آنکھوں میں انتظار ہے، اس کے اوپر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں جنہیں اس کی ماں اپنے چادر کے پلو سے اڑا رہی ہے۔اس ماں کی تکلیف کا کیا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔یہ مدرز ڈے ہماری ان تمام ماؤں بہنوں کے نام جن کو ماں کہنے والے ان سے دور کہیں جنت میں آرام کر رہے ہیں۔
ان ماؤں کی عظمتوں کو سلام ، ان کی تربیت ان کے حوصلے ، ان کی جرءاتوں کو سلام۔۔آج کا مدرز ڈے ہم ان ماؤں کے نام کرتے ہیں جن کے شوہر، بچوں اور خاندان نے جامِ شہادت نوش کیا اور انہوں نے پھر بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔۔عید کے دن حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹوں اور چار پوتا پوتیوں نے جام شہادت نوش کیا۔اسماعیل ہنیہ نے ہسپتال میں داخل اپنی بیوی کو جب یہ خبر دی تو انہوں نے اٹھ کر دو نفل شکرانہ ادا کیا۔اور ان کی شہادت پر آنسوؤں کی جگہ ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ کیا ایسی مائیں ہم نے چودہ سو سال پہلے نہیں پڑھیں تھیں؟ان کے بارے میں پڑھ کر ہمیں لگتا تھا کہ شاید مورخ نے مبالغہ آرائی کی ہو لیکن اب اپنی آنکھوں سے ان ماؤں کو اپنی کوکھ اجڑنے پر رب کا شکر گزار دیکھ کر اپنی تاریخ کی سچائی پر کوئی شک نہیں رہا۔
ان ماؤں کو جنت میں ملنے کا کتنا یقین ہے کہ ہم سب جنت میں اکھٹا ہوں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ مدرز ڈے پر ہم اپنی ماں کو خراجِ تحسین پیش کریں، کیونکہ ہم لوگ اپنی اپنی مصروفیت میں اپنے والدین سے ملنا ان کے دل کی باتیں سننا ان کو یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ ہم آج جو کچھ بھی ہیں ان کی وجہ سے ہی ہیں ۔اور آج بھی ہمیں ان کی اور ان کی دعاؤں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی بچپن میں تھی۔ اس وقت جو معاشرہ ہمارے سامنے ہے اس میں شاید ہم وہ آخری نسل ہوں جو اب بھی اپنے والدین سے اتنی محبت کرتے ہیں ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور کی دعاؤں کے طلبگار ہیں، کیونکہ آگے جو نسل ہمارے سامنے پروان چڑھ رہی ہے اس کی نظر میں شاید والدین کا کام صرف بچّوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی خواہشات کی تکمیل کرنا اور ان کو ہر سہولت بہم پہنچانا ہے۔ بہت کم ایسے خوش نصیب والدین ہوں گے جن کے بچے آج بھی اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں۔ اس کی وجہ چاہے کچھ بھی سمجھ لیں، نفسا نفسی، مصروفیات، والدین کا اولاد سے زیادہ سوشل میڈیا کو وقت دینا یا پھر زمانے کا چلن کہہ لیں اور والدین بھی یہ کہہ کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں کہ آج کل کی نسل ہے ہی بے مروت۔
لیکن وہیں ہم فلسطین کی نسل کو بھی دیکھ رہے ہیں، ان کی ماؤں کو بھی دیکھتے ہیں، ان کے نوجوانوں کو بھی دیکھ رہے ہیں، ان کے بوڑھوں کو بھی دیکھ رہے ہیں، یہ تو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگتے ہیں ۔مغرب و مشرق حیران ہیں کہ انبیاءؑ کی سرزمین کے یہ لوگ ایمان کے کس درجے پر ہیں۔سلام ہے ان کی ماؤں پر جنہوں نے یہ شیر پیدا کئے، آ ئیے! اس مدرز ڈے فلسطین کی ان ماؤں کو سلام پیش کریں جو تاریخ رقم کر رہی ہیں اور آ ئند ہ شاید ان کے واقعات ہمیں کتابوں میں پڑھنے کو ملیں جنہیں آ ج ہم اپنی آ نکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔۔ سلام اے ماں۔