ملتان ( نیوزایجنسیاں) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا گالی نہیں، احتجاج کا عنوان ہے، ملک پر اقلیت کی حکومت ہے، مجھے نہیں لگتا یہ حکومت ڈیلیور کر سکے گی، حکومت مستعفی ہو کر دوبارہ انتخابات کرائے،جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رول نہ ہو، کوئی اور ہوتا کون ہے مجھے وزارت عظمی یا وزارت اعلی کی پیشکش کرے، یہ نہیں ہوسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ ملازم بھی ہو اور حاکم بھی ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ملک کے مفاد میں آپ عمران خان سے مل سکتے ہیں تو فضل الرحمن نے کہا کہ ہر چیز باوقار انداز سے ہونی چاہیے، ہم12-13سال ایک دوسرے مدمقابل رہے ہیں اور ہمارے بڑے تحفظات ہیں، اگر ان تحفظات کو دور کیا جاتا ہے تو ہم سیاسی لوگ ہیں، مذاکرات سے بھی انکار نہیں کریں گے اور اگر مذاکرات کے لیے ماحول بنتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں گے، مستقل جھگڑے، جنگ اور تلخیوں کو نہ ملک کے مفاد میں سمجھتے ہیں نہ یہ ہمارے معاشرے کے مفاد میں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے وفود مجھ سے آف دی ریکارڈ اور میڈیا میں مل رہے ہیں، گفتگو چل رہی ہے اور بات چیت یہی ہو رہی ہے کہ آپس کے تحفظات کو کس طرح سے دور کر سکتے ہیں۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی طرف سے عمران خان پر یہودی لابی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تو جب سیاسی تلخیاں ختم ہوں گی تو آپ ان کو یہودی لابی سے مسلمان لابی میں کیسے لائیں گے، جس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ جب ہم نے برصغری کی سیاست میں کسی کو انگریز کا ایجنٹ کہا ہے یا عالمی سطح ہر کسی کو امریکی ایجنٹ کہا ہے تو یہ عنوان ہے، کوئی گالی نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ عالمی سطح پر جو معاشی نیٹ ورک اور اس پر یہودی بالادستی ہے، جب میں دیکھوں گا کہ میرے ملک کو بھی اس نیٹ ورک میں ڈالا جا رہا ہے اور سودی نظام میں جا رہا ہوں تو اس سے میرا اختلاف ہو گا، اگر اس اختلاف کا عنوان یہودی ایجنٹ ہو گا تو اس کو گالی کیوں سمجھا گیا، میری بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں، اگر میں کہہ رہا ہوں کہ قادیانیوں کو پاکستان میں دوبارہ مسلمان کا درجہ دینے پر میرے تحفظات ہیں تو مجھے گالی دینے کے بجائے آپ مجھے مطمئن کریں، ہم ان چیزوں کو سیاسی طور پر دیکھ رہے ہیں۔