پاکستان ایک حیرت کدہ ہے۔ ہر اعتبار سے مکمل ونڈرلینڈ۔ اسلامی بھی جمہوریہ بھی۔ ایٹمی بھی بیلسٹک بھی۔ نو کروڑ لوگ غربت کی لکیرسے بھی نیچے اور روٹی کے محتاج بھی۔کچھ لوگ پورے ملک کے وسائل پر قابض بلکہ سات سمندر پار بھی۔ آئین بھی اور خوفناک قانون شکنی بھی۔ دنیا کی پانچویں بڑی قومی فوج اور ہر گلی اور ہر علاقے میں نجی اور ذاتی لشکر بھی۔ غریبوں کے لئے صرف کھوکھلے نعرے اور امیروں کیلئےمنصوبے بھی۔جبکہ غربت افلاس اور سرمایہ داری کے مارے ہوئے لوگ بھی۔ حیرت کدہ ہے ناں...؟
پوٹھوہاری اورتھری زبانوں میں کئی لفظ مشترک ہیں۔قاتل کو دونوں زبانوں میں ’’مارُو‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔تازہ ترین سوال یہ ہے کہ مِٹھی سمیت تھرپار کر کے بے آسرا اور بے نوا جانوروں، پرندوں اور بے موت مارے جانے والے’’ حیوانِ ناطق‘‘ کا مارُو کون ہے ...؟ کچھ کا خیال ہے تھر کی سر زمین خود ہی بے رحم اور مارُو ہے۔ تھر کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں بتاتے ہیں کہ اس نے سالوں اور عشروں سے نہیں بلکہ صدیوں اور زمانوں سے وائلڈ لائف اور گھریلو زندگی کو بیک وقت اپنے دراز دامن میں پناہ دے رکھی ہے۔ اس لئے مجھے اس بے معنی اور لایعنی تصور سے اتفاق نہیں کہ تھرپارکر لاہور شہر کی کسی ظالم ماں کی طرح خود ہی اپنے بچوں کا قاتل ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کے غریب، متوسط، سفید پوش طبقات کا قاتل کون ہے...؟ اس سوال کا جواب ہم سب کے سامنے ہے لیکن پھر بھی بولتا کوئی نہیں ۔ نہ پارلیمان نہ ہی دانش کدے۔ سیاست تو ویسے ہی ذاتی مصلحت اور کاروباری مفاہمت کا طواف کر رہی ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے مارُو نے ہر کسی کے منہ میں چھوٹا موٹا لالی پاپ ٹھونس رکھا ہے۔ البتہ اگر کوئی گھر سے باہر نکلنے کی تکلیف کرے تو پاکستان کے عام لوگ خواہ وہ ریڑھی لگاتے ہوں، ہاکر ہوں یا دہاڑی دار مزدور، اس قدر باشعور ہیں کہ وہ اپنی سر زمین پر مسلط اس نظامِ سرمایہ داری اور جاگیرداری بلکہ چور بازاری سسٹم کو مارُو یعنی قاتل سمجھتے ہیں۔
آئیے مل کر اس مارُو نظام کا پیچھا کرتے ہیں۔ سب سے پہلے گجرات کے دیرینہ قصبے ’’صبور‘‘چلئے جہاں رفاقت اعوان کی آخری آرام گاہ ہے۔ قتل کے مقدمے سننے والا وہی سیشن جج جس کے اپنے قتل کا فیصلہ گھنٹوں میں ہو گیا۔ گارڈ کے گلے میں پھندا پھنسا کر دارالخلافے کے حکمرانوں نے تحقیق و تفتیش سے جان چھڑا لی۔ صبور جانے کے لئے پنجاب کو سری نگر سے ملانے والی قدیم بھمبر روڈ کا راستہ لینا پڑتا ہے۔ جہاں کھاریاں کے سابق میئر ندیم کائرہ، چوہدری ریاض ٹیولپ اور جماعتِ اسلامی کے ایک لیڈر صفی صاحب ہمارے گائیڈ بنے۔ صبور تک پہنچنے کیلئے بہت سے معروف بیوروکریٹ اور عظیم صوفی بزرگ پیر عبدالمولیٰ کی آخری آرام گاہ بھدر شریف سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد شہید میجر عزیز بھٹی نشانِ حیدر کا گائوں لادیاں آتا ہے۔ پھر سابق صدر فضلِ الٰہی، سابق چیف جسٹس الیاس، سابق ٹی بوائے اور پھر پاک بحریہ کے ایڈمرل شریف اور عطا اللہ شاہ کے گائوں آتے ہیں۔ جس زمانے میں یہاں مُغلوں کا سکّہ چلتا تھا تب عدالتیں، قافلے اور شہر امن کے دربار سمجھے جاتے تھے۔ حکمران مقابلتاً غریب تھےکیونکہ انہیں اپنی رعایاکو سمجھانا پڑتا تھا کہ وہ اُن جیسے ہیں اس لئے اُن کی حکمرانی اُن کے لئے ہی ہے جسے سب مل کر ہی حملہ آوروں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ حکمرانوں کا سرمایہ اپنے ہی ملک میں جمع ہوتا تھا اور ابھی اصحابِ اقتدار نے غیر ملکی سرمایہ کاری کا ہنر نہیں سیکھا تھا۔
شہنشاہ جہانگیر اسی علاقے میں فوت ہوا جہاں آج بھی عدل کی زنجیر لٹکانے والے اس حکمران کی جائے وفات پر ’’شاہ جہانگیر‘‘ کا غیر سرکاری مقبرہ موجود ہے۔ ہر سال یومِ وفات کی بکرمی تاریخ کے مطابق یہاں بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ آج پاکستان میں قانون و انصاف کا کوئی مندر ایسا نہیں جہاں رفاقت کے گھر والوں، اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ کے وکلاء ججوں اور شہریوں سے کوئی پوچھے کہ اُن کا مارُو کون ہے...؟ اُس کا سادہ اور سیدھا سبب یہ ہے کہ ریوڑوں کو ہانکا جاتا ہے۔ ہانکے جانے والی بھیڑ بکریوں سے رائے نہیں لی جاتی۔اب چلتے ہیں تھرپارکر جہاںبدلتے موسم تھر کی پہچان ہیں۔ یہ موسم تھر والوں کی محبت کی طرح شدت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ جب بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا ایک دلال آمریت کی رتھ پر چڑھ کر مِٹھی میں وزیرِ اعظم کا الیکشن لڑنے گیا تو اس نے کہا تھا تھرپارکر کو پیرس بنا دوں گا۔ اس کے بعد اور پہلے یہاں مِٹھی کو لندن، جدہ اور امریکہ بنانے والوں کی حکومتیں بھی آئیں۔ لیکن کسی کے پاس وقت تھا نہ دردِ دل کہ وہ تھر میں صرف اتنا فرق پیدا کر دیتے کہ انسان، جانور، سانپ اورگِدھ ایک ہی جوہڑسے پانی نہ پیئں۔اگر 66 سالوںمیں پاکستان کے وسائل کی ایک ایک بوند تھر اور چولستان جیسے علاقوں میں برستی تویہ علاقے آج موت کی وادی یا موت کا کنواں بننے سے بچ جاتے ۔اگر آپ دل کی آنکھ سے دیکھیں تو آپ کو پورا پاکستان اسلام آباد کچہری اور تھر پارکر جیسا نظر آئے گا۔ ہر جگہ صرف دو برادریاں بستی ہیں دو ہی طبقات ہیں جن کو حصوں، خانوں اور فرقوں کے لیبل لگا کر مختلف کارٹیل عوامی وسائل اور قومی معیشت پر قابض ہو گئےہیں۔ اس قبضے کو پکّا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ غریب مڈل کلاس ورکنگ کلاس کے لوگ خانوں میں بٹے رہیں ۔ ویسے ہی جیسے جنگل کے بادشاہ سے ہاتھی تک چڑیا گھر کے پنجروں میں بند ہوتے ہیں ۔کوئی بھی اپنی ساری زندگی اتنا شعور حاصل نہیںکرسکتا کہ وہ سب کو اکٹھا کرنے کے لئے زور لگائے اور پنجرے کی جالی توڑ دے۔
ہم سارے اسی ایک بڑےپنجرےکےمختلف خانوں میں بند ہیں اور اپنی اپنی بولیاں بول کر سمجھتے ہیں ہم نے تخلیقِ آدم اور’’خلیفہ فی الارض‘‘ہونے کا حق ادا کردیا۔ پاکستان میں دو ہی برادریاں ہیں۔ دو ہی قبیلے اور دو ہی طبقے۔ ایک ظالم ہے اور ایک مظلوم۔ ایک حاکم ہے اور ایک محکوم۔ ایک قابض ہے اور ایک مقبوض۔ ایک غائب ہے اور ایک موجود۔ ایک جابر ہے اور ایک مجبور۔مگر یہ مظلوم، محکوم،مقبوض،غائب، مجبور، اکثریت میں ہونے کے باوجود اس قدر خود فریب ہیں اور خود اپنے ہی طبقے کے لئے ایسے بنارسی ٹھگ ہیں جو ظالم،حاکم،قابض،موجود، جابر کے ہاتھ میں اختیار، اقتدار کا کوڑا پکڑا کر سمجھتے ہیں کہ یہ کوڑا اُن کی پیٹھ کی کھال نہیں ادھیڑے گا۔ ایسا دُنیا کے اور کس ملک میں ہو رہا ہے...؟ مجھے معلوم نہیں۔ ایسے ریوڑ جو اپنی کھال کا کوڑا بنا کر ہانکنے والوں کو خود پیش کریں وہ صرف یہیں ملتے ہیں۔
اسی لئے پاکستان ایک حیرت کدہ ہے۔ ہر اعتبار سے مکمل ونڈرلینڈ۔ اسلامی بھی جمہوریہ بھی۔ ایٹمی بھی بلسٹک بھی۔ نو کروڑ لوگ غربت کی لکیرسے بھی نیچے اور روٹی کے محتاج بھی۔کچھ لوگ پورے ملک کے وسائل پر قابض بلکہ سات سمندر پار بھی۔ آئین بھی اور خوفناک قانون شکنی بھی۔ دنیا کی پانچویں بڑی قومی فوج اور ہر گلی اور ہر علاقے میں نجی اور ذاتی لشکر بھی۔ غریبوں کیلئے صرف کھوکھلے نعرے اور امیروں کے لئے منصوبے بھی۔جبکہ غربت افلاس اور سرمایہ داری کے مارے ہوئے لوگ بھی۔ حیرت کدہ ہے ناں...؟