• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھلوں کے بادشاہ آم کو دنیا بھر کے لوگ نہایت شوق سے کھاتے ہیں۔ ہر عمر کے افراد کو اس کے آنےکا انتظار رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آم کی کاشت سب سے پہلےجنوبی ایشیا میں کی گئی، تاہم اب یہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں کاشت کیا جاتاہے۔ دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر آم کی کاشت سے ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباًچار کروڑ 60لاکھ ٹن آم پیدا ہوتا ہے۔ 

پاکستان ،بھارت اور فلپائن میں آم کو قومی پھل جبکہ بنگلہ دیش میں قومی درخت کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا بھر میں اس کی مختلف اقسام موجود ہیں، ہمارے ملک پاکستان کا آم دنیا بھر میں مقبول ہے۔ یہاں اس کی 300 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، جنھیں بیرون ممالک برآمد کرکےکثیر زرِمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ آم ذائقے میں لذیذ اور رس دار ہونے کے ساتھ ساتھ صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔ ان طبی فوائد سے متعلق جان کر آپ کی آم کے لیے پسندیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔

آم کی غذائیت

ماہرین کے مطابق آم میں کیلوریز کی تعداد کم اور فائبر کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب آم کو وٹامن اے اور سی کا بہترین ذریعہ بھی کہا جاتا ہے۔ آم کا گودا فولیٹ ،B6،آئرن ،کم مقدار میں کیلشیم ، زنک اور وٹامن ای پر مشتمل ہوتا ہے۔ آم اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات سے بھرپور پھل ہے، جن میں مخصو ص فیوٹوکیمیکل مثلاًگیلوٹینس اور میگفرین شامل ہیں۔ یہ تمام خصوصیات طبی طور پر آم کے فائدہ مند ہونے کی توثیق کرتی ہیں۔

ایک آم (165گرام) کی قاشیں جو غذائی اجزا فراہم کرتی ہیں، ان میں99کیلوریز، 1.4گرام پروٹین، 24.7گرام کاربز، 0.6گرام فیٹ، 2.6گرام ڈائٹری فائبر، روزانہ کاوٹامن سی کا 67فیصد،کاپر 20فیصد، فولیٹ روزانہ کا 18فیصد، 11.6فیصد وٹامن بی6، 10فیصد وٹامن اے،9.7فیصد وٹامن ای، 7فیصد نیاسن، 6.5فیصد وٹامن B5، 6 فیصد وٹامن کے،6فیصد پوٹاشیم، 4.5 فیصد میگنیز، 4فیصد تھیا مائن اور 4فیصد میگنیشیم ہے۔

مدافعتی نظام کی بہتری

انسان کے مدافعتی نظام کی خرابی بہت سی بیماریوں کی جڑ بنتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ماہرین ایک صحت مند انسان کے لیے صحت مند مدافعتی نظام ضروری قرار دیتے ہیں۔ آم چونکہ وٹامن اے ،بی ،سی ، کے اور فولیٹ پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا اس کے ذریعے مدافعتی نظام صحت مند رہتا ہے۔ مثلاً وٹامن اے کی موجودگی انسانی جسم کو انفیکشن سے لڑنے میں مدد دیتی ہے۔ 

چنانچہ روزانہ ایک کپ (165گرام ) آم روزانہ 10فیصد وٹامن اے کی مقدار پوری کرتا ہے۔ وٹامن سی انسان کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ وٹامن سی کے ذریعے خون میں سفید خلیات متاثر کن انداز میں کام کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ جِلد کے تحفظ میں بھی مددگار ہوتا ہے، چنانچہ روزانہ 165گرام آم کا استعمال ایک تہائی وٹامن سی کی مقدار پوری کرتا ہے۔

دل کی صحت

آم میگنیشیم، پوٹاشیم اور میگفرین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تمام اجزا دل کی صحت کے لیے بہترین قرار دیے جاتے ہیں۔مثا ل کے طور آ م میں موجود پوٹاشیم دل کی رفتار کو معمول پر رکھنے اور خون کی شریانوں کو پرسکون بنانے کے ساتھ امراض قلب سے بچاؤ میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ 

دوسری جانب یہ غذائی اجزا خون میں کولیسٹرول کی سطح بھی کم کرتے ہیں۔ آم میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹ میگفرین سے متعلق جانوروں پر کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ دل کے خلیوں کو سوزش، تکسید ی کشیدگی اور سکڑنے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ہاضمہ

آم میں ایسی کئی غذائی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو ہاضمہ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں مثلاًامالائیسز یعنی جسم کے اندر موجود انزائمز کا ایک ایسا گروپ جو صرف نشاستے کو توڑ کر اسے چھوٹے اور سادہ مرکبات میں تبدیل کرتا ہے تاکہ وہ بآسانی جذب ہوتے ہوئے جسم کے استعمال میں آجائیں۔ اس کے علاوہ آم پانی کے ساتھ ڈائٹری فائبر اور ہائیڈروجن بھی فراہم کرتا ہے۔ ہائیڈروجن پانی کی کمی کو دور کرتا ہے جبکہ ڈائٹری فائبر قبض، ڈائریا اور اسہال جیسی بیماریوں کا حل تصور کیا جاتا ہے۔

آنکھوں کیلئے مفید

آم میں وٹامن اے کے علاوہ دو خاص اینٹی آکسیڈنٹس لیوٹین اورذیازینتھن پائے جاتے ہیں۔ ذیازینتھن اور لیوٹین اضافی بلیو لائٹ کو ختم کرکے آنکھوں کو خراب ہونے سے محفوظ رکھتا اورسورج کی شعاعوں سے بچاتاہے۔ یہ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں اور جِلد کے داغ دھبوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ جبکہ وٹامن اے کی کمی بینائی کے مسائل پیدا کرتی ہے۔

کینسر کا کم خطرہ

آم میں پولی فینول کی زائد مقدار پائی جاتی ہے۔ پولی فینول آکسیڈیٹو اسٹریس (Oxidative Stress) سے بچاتا ہے، جو کہ انسانی جسم میں کینسر کے خطرات میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے۔ دوسری جانب مختلف تحقیق یہ ثابت کرتی ہیں کہ آم میں موجودبیٹا پروٹین کی زائد مقدار چھاتی اور پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرات کو کم کردیتی ہے۔

آم سے بلڈ شوگر میں اضافہ

ذیابطیس کے ماہر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جن افراد کو ذیابطیس کا مرض لاحق ہے انھیں آم نہیں کھانا چاہیے۔ آم میں موجود شکر ’فرکٹوز‘ کی شکل میں ہوتی ہے۔ تاہم ذیابطیس کے مریضوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ آم محدود مقدار میں کھائیں۔ 

آم میں موجود فائبر خون میں آم سے شکر کے جذب ہونے کی رفتار کو سست کر دیتا ہے اور یہ جسم کے لیے کاربوہائیڈریٹس کے بہاؤ کو منظم کرنے اور خون میں شکر کی سطح کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ آم کا گلائسیمک انڈیکس یکساں ہوتا ہے، لہٰذا اگر آم کو صحیح مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ فائدہ مند ہوتا ہے۔

کم گلائسیمک انڈیکس والی غذائیں معمول کے مقابلے میں آہستہ آہستہ ہضم اور جسم میں جذب ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں اچانک اضافے کے بجائے بلڈ شوگر کی سطح میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔

صحت سے مزید