• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پالیسیوں کا تسلسل ضروری، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس مگر کئی شعبوں کو چھوٹ، فائلر بنانے کے لیے سخت اقدامات، جیو گریٹ ڈیبیٹ

کراچی (ٹی وی رپورٹ) ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی بہتری کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے، تنخواہ دار طبقے پر تو ٹیکس ہے مگر کئی شعبوں کو چھوٹ حاصل ہے، فائلر بنانے کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، این ایف سی پر نظرثانی ضروری ہے، کراچی کے علاوہ پورے ملک کے 22؍لاکھ دکانداروں میں سے صرف تیس ہزار ٹيکس دیتے ہیں، مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر مزید چھوٹ نہیں دی جاسکتی، ٹیکس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہیے، شبری زیدی نے کہا حکومت ٹیکس لگانے میں سنجیدہ ہی نہیں، آئی ایم ایف کو چکر دیکر پیسے پکڑنا چاہتی ہے، عمارہ حبیب خان نے کہا اگر کیش ختم کر کے ڈیجیٹل پیمنٹ پر لے آئیں تو ہر شخص خود بخود رجسٹرڈ ہوجائیگا، ٹرانزیکشنز کی ڈیجیٹلائزیشن کے بغیر معیشت کو دستاویز نہیں بنایا جاسکتا، پاکستان سے کہیں کم خواندگی والے ملکوں کی معیشت بھی ڈيجیٹائز ہوچکی، خالد کھوکھر نے کہا اگر زراعت پر ٹیکس لگا تو پھر پاکستان کی زراعت پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے،گندم کی مثال سامنے ہے، پاکستانی کاشتکار کو لیول پلائنگ فیلڈ میسر نہیں ہے، عتیق میر نے کہافیکس ٹیکس پر ایگری کرتے ہیں، آصف سم سم نے کہا ٹیکس کی تمام سلیب ہم ادا کر تے ہیں، رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بھگایا جارہا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔پروگرام کی میزبانی شاہزیب خانزادہ نے کی۔ زراعت، ریٹیلرز، ہول سیلرز، رئیل اسٹیٹ سے متعلق ٹیکس پالیسز فائلر ،نان فائلر اور ٹیکس نیٹ کو کیسے بڑھایا جائے کے موضوع پر ہونے والی ڈیبیٹ میں گفتگو کرتے ہوئےسابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کیلئے ان شعبوں پر ٹیکس لگانا ہوگا جنہیں اب تک چھوٹ دے رکھی ہے، رئیل اسٹیٹ اور زراعت جیسے شعبوں کو مزید چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کیے بغیر کوئی اصلاحات کامیاب نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا دنیا نے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا ہے اور ہم بھی یہ کرسکتے ہیں، وفاق کے پاس فنڈز نہیں لیکن صوبوں میں صورتحال مختلف ہے، رواں مالی سال کو بھی ضائع کردیا گیا کیونکہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جاسکتا تھا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی رواں سال 10 فیصد تک پہنچ جائے گی لیکن یہ اب بھی کم ہے، صورتحال یہ ہے کہ سونے کے کاروبار سے کوئی ٹیکس حاصل نہیں کیا جاتا، رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں جائیداد کے مختلف ریٹس کو ختم کردینا چاہیے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ٹیکس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہیے، فری میں قوم کی خدمت بھی نہیں ہوسکتی، ٹیکس تو تمام شعبوں کو دینا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل نے تجویز دی کہ فکسڈ ٹیکس کا نظام لانا چاہیے، صنعتی سطح پرسیلز ٹیکس کا نفاذ ہونا چاہیے، دکانوں سے سیلز ٹیکس نہیں لینا چاہیے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بڑے کاشتکار سے ہم تھوڑا سا ٹیکس تو لے سکتے ہیں، زراعت پر فکس ٹیکس ہونا چاہیے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ ان ڈاکیومنٹڈ پیسہ پراپرٹی میں جاکر پاک ہوجاتاہے، نان فائلرز کو گاڑیاں اورپراپرٹی خریدنے نہ دیں، دوسرے سال پاسپورٹ بنانے نہ دیں۔ انہوں نے کہا کسی صوبائی حکومت نے پراپرٹيز کا سروے کرانے کی ہی زحمت نہیں کی۔مفتاح اسماعیل نے کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ امیروں کی اربوں کی جائیدادیں ہوں اور اُن سے ٹیکس نہ لیا جائے اور غریبوں سے سیلز ٹیکس لیا جائے ۔ یہ سال ہمارا ضائع ہوا ہے ۔ریٹیلرز پر کم از کم تین چار ہزار ٹیکس ماہانہ ہونا چاہیے پورے پاکستان میں پچیس لاکھ ریٹیلرز ہیں ۔سونے پر ہم نے سترہ فیصد ٹیکس لگایا تھا میں نے درخواست کی تھی حکومت سے کہ اس کو تین چار فیصد پر لے آئیں اندازہ لگائیے بیس سونے کی دکانیں پورے پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق نو کروڑ لوگ خطے غربت سے نیچے ہیں ایک کروڑ لوگ اور جائیں گے اس سال جب تک حکومت کا خسارہ کم نہیں ہوگا مہنگائی بڑی رہے گی۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو سہولتوں کی فراہمی پر غور کرنا چاہئے مستقبل پالیسی قائم رکھناچاہئے۔ شہریوں کو ٹیکس ادائیگی کرنا چاہئے۔ کہیں نہ کہیں ہمیں بھی حصہ ڈالنا پڑے گا۔ اخراجات پر کنٹرول کرنا حکومت کے لئے بہت ضروری ہے ۔سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)شبر زیدی نے کہا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتا اور حکومت ٹیکس لینے میں سنجیدہ ہی نہیں، حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹیکس لینے کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کو چکر دے کر پیسے پکڑ لے۔ شبرزیدی نے کہاکہ صرف بھارتی شہر ممبئی کا ٹیکس پورے پاکستان سے زیادہ ہے، ہمیں طویل مدتی ٹیکس پالیسی لانا ہوگی، 10 سال کی پلاننگ درکار ہے، معیشت پر سوشل معاہدہ ہونا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں 30 لاکھ صنعتی صارفین ہیں اور ان میں سے صرف 1 لاکھ ہی ریٹرن فائل کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملک بھر میں پراپرٹی ٹیکس کیوں نہیں لگ رہا؟ کسی بھی صوبائی حکومت نے پراپرٹی ٹیکس کا سروے نہیں کروایا۔سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے آخری پراپرٹی سروے کب کیا ہے؟ پوچھتا ہوں لاہور میں آخری پراپرٹی سروے کب ہوا ہے؟انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت سارے شعبے کے لوگوں کو پہلے ہی نچوڑا ہوا ہے، پراپرٹی کا سروے کیا جانا چاہیے، ہمارا سیاسی نظام ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتا۔شبر زیدی نے کہا کہ کراچی منیلا جیسا ہے، منیلا نے جیو فینسنگ کروائی اور پراپرٹی ٹیکس وصول کیا گیا، بلڈرز اور ڈیولپرز کو رعایت دینی چاہیے مگر پراپرٹی ڈیلر کو کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔انہوں نے کہاکہ تاجروں، صنعت کاروں کی بلیک منی کا رئیل اسٹیٹ میں جانا ایک شیطانی چکر ہے

، رجسٹری اور مارکیٹ ویلیو میں فرق ہے۔سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حکومت کے دیگر ادارے ٹیکس کلیکشن میں منفی کردار ادا کرتے ہیں، ہماری معیشت نہیں چل رہی، ٹیکس نظام کیلیے پوری قوم کو ساتھ چلنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں نے پوری زندگی ٹیکس پڑھا ہے، ٹیکس ایکٹ پر عمل درآمد کے بغیر ٹیکس نہیں لیا جاسکتا۔شبر زیدی نے کہا کہ تمام دکانیں صوبائی حکومت کی شاپ ایکٹ میں آتی ہیں، 90 فیصد دکانیں شاپ ایکٹ میں رجسٹر ہی نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ دکانوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے سے پہلے دکانوں کی شناخت اور تعین کرنا ہوگا، یہی دکاندار اسمگلڈ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان بیچ رہے ہوتے ہیں۔سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بڑے تاجروں کو سیلز ٹیکس نظام میں لانا ہوگا، بڑے تاجروں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو چھوٹے تاجر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ درمیانے درجے کے دکانداروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو عتیق میر چھوٹے دکانداروں کو لے کر میدان میں آجاتا ہے۔شبر زیدی نے کہا کہ بجلی کنکشن کے حصول کیلیے صارف کو انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونا چاہیے اور نہیں ہوتا ہے، اس حوالے سے لیسکو والوں نے مجھے کہا تھا کہ ہم آپ سے تعاون نہیں کریں گے۔انہوں نے کہاکہ وزیر بجلی عمر ایوب نے مجھے اپنے کسٹمرز کی تفصیل تک نہیں دی، صنعتی صارفین کو بجلی اور گیس حکومت ہی فراہم کرتی ہے اور ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔صدر آل کراچی تاجر اتحادعتیق میر نے کہا ہے کہ فکسڈ ٹیکس پر تیار ہیں مگر پہلے بات کی جائے، اگر ٹیکس دیا بھی تو وہ قرضوں پر سود کی ادائیگی اور حکمرانوں کی عیاشی میں جائیگا۔ حکومت کی طرف سے ٹیکس لینے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، جنہوں نے ٹیکس لینا ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط لے کر آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فکسڈ ٹیکس پر رضامند ہونے پر تیار ہیں مگر پہلے بات کی جائے، بند کمرے میں بنائی گئی پالیسی نہیں چلتی۔ حکومتی سطح پر پالیسی پر عملدرآمد ہی نہیں ہوتا، نچلی سطح پر تاجروں کے پاس جایا جائے، ٹیکس دینے والوں کے مسائل کو حل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔عتیق میر نے کہا کہ بڑی جگہ پر قائم دکان کا مطلب بڑا کاروبار نہیں ہوتا، تاجروں سے کہتا ہوں کہ فائلر بننے میں فائدہ ہے، ڈرا دھمکا کر ٹیکس نیٹ وسیع نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ کاروبار چلانا اس وقت مشکل ترین ہے، مارکیٹ میں کساد بازاری ہے، بجلی بل بڑا خرچہ ہے، ان حالات کو کون درست کرے گا؟آل کراچی تاجر اتحادکے چیئرمین نے کہا کہ اسکیمیں بنانے کیلیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جاتی ہے، مشاورت کے بغیر کوئی اسکیم لائی جائے گی تو ناکام ہوگی۔ماہر معاشیات عمار حبیب خان نے کہا میں سمجھتا ہوں بتدریج اگر کیش ختم کر کے ڈیجیٹل پیمنٹ پر لے آئیں ہر شخص اکاؤنٹ رکھتا ہے اس طرح سے خود بخود سب رجسٹرڈ ہوجائے گا۔انڈیا میں زیادہ تر ٹرانزیکشن ڈیجیٹل ہو رہی ہیں بھارت میں جو کباڑ کا کام کر رہا ہے وہ تک ڈیجیٹل پیمنٹ لیتا ہے۔شادی ہال پورے کراچی میں کہیں بھی چلے جائیں تقریباً ایک سو دس سے ایک سو بیس ارب کا سالانہ بزنس ہے اور اس سے بے تحاشہ انڈایسٹریزجڑی ہوئی ہیں۔ ہالز کی پیمنٹ اکاؤنٹ کے ذریعے کریں یا چیک کے ذریعے کریں اس میں کسی کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے جب اتنا ڈیٹا آپ کے پاس آجائے گا تو آپ کو بہتر آئیڈیا ہوجائے گا کہ کس پر کتنا ٹیکس لگانا ہے۔نو کھرب روپے کیش پاکستانی معیشت میں سرکولیٹ کر رہا ہے ۔ہزار سے اوپر کی ٹرانزیکشن کیش میں بند کر دینی چاہیں بہت سے ممالک ہیں جو اس پر عمل کر رہے ہیں۔ ابھی تک ہر بات کی شروعات نہ سے ہی ہو رہی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا وہ نہیں ہوسکتا ۔ایسا سسٹم بن رہا ہے کہ جو قانونی طور پر بزنس کر رہا ہے وہ نہ کرے ۔شاپ ایکٹ سے رجسٹریشن کیسے ہوگی؟ یہاں تنخواہ دار طبقے کا ذکر نہیں ہے جو کہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے ۔جو تنخواہ دار ٹیکس کی ادائیگی کررہا ہے اس سے کبھی کسی نے دریافت کیا ہے کہ آپ کے حالات کیسے ہیں۔ ماہانہ50ہزار آمدنی والے افراد سے بھی آپ ٹیکس وصول کررہے ہیں جو کہ ماہانہ دوسو ڈالر بھی نہیں بنتے۔ تنخواہ دار طبقہ اگر اتنی کم آمدنی پر ٹیکس ادا کرسکتا ہے تو دکان دار جو اس سے زائد کمارہے وہ ٹیکس ادا کیوں نہیں کرسکتا۔گزشتہ چار برسوں کے دوران تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں30,35 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ افراط زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ اگر ٹیکس ادا کرسکتا ہے تو باقی تمام سیکٹر ٹیکس کیوں ادا نہیں کرسکتے۔معیشت جذبات پر نہیں چلتی معیشت ڈھانچے کے حساب سے چلتی ہے۔صدر پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا پاکستانی کاشتکار کو لیول پلائنگ فیلڈ میسر نہیں ہے ریجن کے ساتھ ہمارا اور انڈین کاشتکار کا فرق دیکھ لیجئے اس لیے دنیا سے مقابلہ نہیں کر پار ہے ہیں۔ اس سال ہمیں یوریا کا بیگ ملا ہے پانچ ہزار پانچ سو کا بلیک میں ملا ہے اور انڈین کاشتکار کو پاکستانی روپے میں آٹھ سو کا ملا ہے ہمیں ڈی ایف ای 14ہزار کی ملی ہے جبکہ انڈین کاشتکار کو پاکستانی روپوں میں تین ہزار چھ سو کی بجلی کا ریٹ آج ساٹھ سے پینسٹھ روپے ہوچکا ہے یعنی ہماری کاسٹ آف پروڈکیشن اتنی بڑھ چکی ہے، زراعت کا کاروبار اب نہ باعزت رہا ہے نہ منافع بخش رہا ہے۔ گندم کے ایشو کا ابھی تک حکومت نے احساس نہیں کیا ہے کہ کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے کہ پنجاب میں تیس فیصد کپاس کی کاشت میں کمی آگئی ہے یہ ملک افورٹ نہیں کرسکتا،پچھلے برسوں میں ایکسپورٹ 31 اعشاریہ پانچ بلین کی تھی اس میں بیس بلین ڈالر کپاس کا حصہ تھا۔ کپاس کیوں کم کاشت ہوئی کیونکہ کاشتکار کے پاس پیسے نہیں تھے چونکہ گندم میں اسے نقصان ہوا کپاس کا ریٹ نہیں ملا آگے چاول کی فصل کا ریٹ نہیں مل رہا۔ پھر دنیا بھر میں پالیسز پچیس سال کیلئے بنتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہر ہفتہ پالیسز چینج کر دی جاتی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں فوڈ سیکورٹی پہلے نمبر پر آگئی ہے اور بارڈر سیکورٹی دوسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ اس وقت زراعت feasibleنہیں ہے اگر ہماری کاسٹ آف پروڈیکشن کو کم نہ کیا گیا تو کاشتکار ممکن نہیں رہے گی۔ملک میں اس وقت زرعی ایمرجنسی کا نفاذ ہونا چاہیے۔ جس حساب سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے کیا ہماری زراعت میں وہ گروتھ ہے ۔ہمارا ریسرچ کا بجٹ ہے۔

اہم خبریں سے مزید