’’باجی! میرے سمیر کو بھی پڑھا دو؟‘‘ پھر وہی مانوس سی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ مجھے عجیب جھنجھلاہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی۔ مائی کرماں والی کی ملتجی نگاہیں مجھ پرمرکوز تھیں۔ مگر مَیں نے اُس کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہ سمجھا کہ جس بات کی تمنّا لے کر وہ ہر دوسرے روز میرے سر پر آکھڑی ہوتی تھی، مَیں بخوبی جانتی تھی۔
نہ صرف جانتی تھی بلکہ اب تومَیں باقاعدہ اُلجھنے لگی تھی۔ مجھے اِس پس ماندہ علاقے میں ایک چھوٹی سی این جی او کے اسکول میں پڑھاتے مہینہ بَھر ہی ہوا تھا۔ اور مَیں مائی کرماں والی سے بخوبی واقف ہوچُکی تھی۔
پتا نہیں، کیا سوچ کر اُس کے والدین نے اُس کا نام ’’کرماں والی‘‘ رکھا ہوگا، حالاں کہ اُس کے بھاگ تو جیسے ازل ہی سے سوئے ہوئے تھے۔ نشئی شوہر کے ہاتھوں ہونے والی تذلیل کے نشان لیے وہ آئے روز اپنے آوارہ بیٹے کے ساتھ میرے سرپرآکھڑی ہوتی اور اُس کا صرف ایک مطالبہ ہوتا کہ مَیں کسی طرح اُس کے بیٹے کو پڑھا لکھا دوں۔ اِس مقصد کے لیے وہ جتنے جتن کرتی، اُس کا بیٹا، پڑھائی سے اُتنا ہی دُور بھاگتا۔
وہ جب سمیر کو اسکول میں بٹھا کر سگنل پربال پوائنٹ بیچنے نکلتی، مسلسل یک ٹک اُسے محبّت نچھاور کرتی نظروں سے دیکھتی رہتی، باوجود اِس کے کہ وہ جانتی تھی کہ اِدھر وہ جائے گی، اُدھر سمیر بھی بھاگ نکلے گا۔ پھر بھی اپنی ممتا بَھری آنکھیں اُسی پر جمائے رکھتی، جیسے کہہ رہی ہو۔ ’’ماں صدقے میرے پتّر! اچھی سی پڑھائی کرنا۔ کبھی اپنے باپ کے اوپر مت جانا، وہ تجھ کو بھی نشے کی لت لگا دے گا۔‘‘
اُس کی آنکھوں میں لکھی تحریر، مَیں باآسانی پڑھ لیتی تھی۔ اکثر تو اُس کی موٹی موٹی غلافی آنکھوں پر دو آنسو ٹکے ہوتے تھے۔ اور مجھے تو وہ آنسو اُس کی متاعِ حیات لگتے تھے کہ جنہیں وہ کبھی گرنے نہیں دیتی تھی، بڑا سنبھال کر رکھتی تھی کہ بہہ گئے، تو جیسے وہ بالکل خالی اور کھوکھلی ہو جائے گی۔
لیکن… آج وہ سمیر کو چھوڑ کے واپس پلٹی تو میرا صبرکا پیمانہ جیسے لب ریز ہوچُکا تھا۔ مَیں نے اُسے آواز دی۔ ’’امّاں کرماں والی! بات سُنو۔ اِسے یہاں چھوڑ کر مت جاؤ، کوئی فائدہ نہیں۔ تمھیں پتا ہے، یہ تھوڑی دیر میں بھاگ جائے گا۔‘‘ وہ رُک گئی۔ وہی دو آنسو اُس کی پلکوں پہ ٹھہرے تھے۔ ’’باجی! مجھے پتا ہے، لیکن کبھی تو رُکے گا۔‘‘ اُس کے لجاجت بَھرے لہجے میں ایک آس، اُمید سی تھی۔ مَیں نے اُس سے نظریں چُراتے ہوئے کمال بےنیازی سے مشورہ دیا۔
’’کرماں والی! اِسے اپنے ساتھ لگالو یا پھر کوئی کام دھندا سکھائو۔ پڑھائی اِس کے بس کا روگ نہیں۔‘‘ مائی کرماں والی میری بات سُن کر جیسے تڑپ اُٹھی۔ ’’باجی! مَیں تو اِسے اچھا انسان بنانے کے لیے آپ کے پاس لے کر آتی ہوں۔ ہر مہینے اِس کی فیس کے لیے پائی پائی جوڑتی ہوں۔‘‘ ’’مگر یہ پڑھنا ہی نہیں چاہتا اور میرے پاس بھی کوئی جادو کی چَھڑی نہیں، جس سے اِسے اچھا انسان بنادوں۔‘‘ مَیں نے دیگر بچّوں کی طرف توجّہ مرکوز کرلی، تو مائی تیزی سےاسکول کےاحاطے سے باہر نکل گئی۔ اور پھر وہی ہوا، جو روز ہوتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں سمیر آنکھ بچا کے بھاگ گیا۔
اُس دن کچھ بھی تو غیر معمولی نہیں تھا۔ سوائے یکایک اُٹھنے والے اُس شور کے، جو سب کو چونکا گیا۔ مَیں اور میرے ساتھ کام کرنے والے ساتھی تیزی سے باہر نکلے کہ ایمبولینس اور پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ ہم سب بھی تیزی سے اُسی طرف بڑھے، جہاں لوگ دائرہ بنائے کھڑے تھے۔ میرے کانوں نے کرماں والی کا نام سُنا، تو مَیں دائرے کو چیرتی آگےبڑھی۔ سامنے سڑک پر کرماں والی کا خون میں لت پت، تقریباً بےسُدھ سا وجود پڑا تھا۔
کوئی بتا رہا تھا کہ ’’کرماں والی کا نشئی شوہر پیسے مانگ رہا تھا اوراُس کے نہ دینے پر اُس نے ایک بھاری پتّھر مائی کےسر پردے مارا تھا۔‘‘ مَیں تیزی سے اُس کے قریب گئی، تو اُس نے اشارے سے مجھے اور قریب بلایا۔ اُس کے خون میں لتھڑے ہاتھوں میں کچھ تھا، جو وہ مجھے دینا چاہتی تھی۔
مَیں نے اُسے تسلی دی۔ ’’گھبراؤ نہیں، کرماں والی! ایمبولینس آگئی ہے۔‘‘ لیکن، اُس نے میرے ہاتھ پکڑ کے جلدی سے کچھ خون آلود نوٹ میرے ہاتھ میں تھما دیئے۔ ’’باجی! میرے سمیر کی فیس …‘‘ اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔ میرے منہ سے بے اختیار ایک چیخ سی نکلی۔ اور اُس کی دبیز پلکوں پر ٹھہرے اَن مول موتی، مٹّی میں مِل کر بےمول ہو گئے۔