کراچی (ٹی وی رپورٹ) سربراہ تحریک تحفظ آئین پاکستان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان فوج کے خلاف نہیں ہے طاقتور سے مذاکرات انہیں ایک باوقار راستہ دینے کیلئے ہونے چاہئیں، ہم نے مذاکرات میں اتنا کہنا ہے کہ آپ اتنے سال سے گڑبڑ کرتے رہے اب پیچھے ہٹ جائیں، انتخابات میں ہم سے سیٹیں چھینی گئیں اور دوسروں کو د ی گئیں، عمران خان کے ساتھ گہرے اور سیاسی تعلقات رہے ہیں، پاکستان بہت سخت مشکل حالات میں ہے، ہم سب پر لازم ہے کہ اجتماعی دانش سے ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالیں، ملک میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ پارلیمنٹ کو بننے اور پنپنے نہ دینا ہے، ضرورت ہے ہم سب اپنے گناہ تسلیم کرلیں اور وعدہ کریں کہ آئیں پاکستان کو چلاتے ہیں، ایس آئی ایف سی اٹھارہویں ترمیم کی روح کے خلاف ہے، سیاسی جماعتیں ایک بات پر متفق ہوجائیں کہ طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہوگی۔ وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ گہرے اور سیاسی تعلقات رہے ہیں، انہوں نے جب ایک سیٹ لی تھی میرے ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے، اے پی ڈی ایم میں 36پارٹیاں آئین کی بالادستی پر متفق ہوئی تھیں، مسلم لیگ ن نے بائیکاٹ کا وعدہ کرنے کے باوجود الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی او ر ہماری پارٹی نے پھر بھی بائیکاٹ کیا، اس دوران ہم نے ایک ساتھ پورے ملک میں دورے کیے تھے، عمران خان 2014ء میں پارلیمان کی طرف بڑھے تو ہمارے درمیان فاصلے پیدا ہوگئے، میں نے ایک فقرہ کہا تو بدلے میں عمران خان نے چادر سر پر اوڑھ کر کچھ کہا۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا اس لیے ہوا کہ پارلیمان کو کبھی بننے اور پنپنے نہیں دیا گیا، پاکستان بہت سخت مشکل حالات میں ہے، ہم سب پر لازم ہے کہ اجتماعی دانش سے ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالیں، ملک میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ پارلیمنٹ کو بننے اور پنپنے نہ دینا ہے، بینظیر بھٹو اور نواز شریف اسی وجہ سے جلاوطن رہے، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا حکمرانی کون کرے گا، منتخب پارلیمنٹ کرے گی یا ادارے، یہ تجربہ بہت بری طرح ناکام ہوگیا ہے، ملک میں جو تماشے ہوئے اس کا نتیجہ نکل چکا ہے، ہم سب اپنے گناہ تسلیم کرلیں اور وعدہ کریں کہ آئیں پاکستان کو چلاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھ کر راستہ نکالیں، سب نے مل کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک کو کیسے چلانا ہے، نواز شریف اور آصف زرداری سے بھی بات چیت ہونی چاہئے، یہ ملک اب صرف سچ اور سچ کہنے سے بچ سکتا ہے، آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بدترین دھاندلی زدہ تھے، عمران خان کسی کو اچھا لگے یا برا لگے یہ انتخابات پی ٹی آئی جیت چکی تھی، ہمت سے یہ کہنا چاہئے کہ عمران خان کی جماعت عام انتخابات جیت چکی ہے، عمران خان کو کس طرح ہٹایا گیا اور کن یاروں نے کیا یہ گناہ کبیرہ ہے۔