ارے بیگم سنتی ہو ذرا۔۔سعید صاحب اپنی زوجہ کو پکارتے گھر میں داخل ہوئے اور بڑے جوش سے ان کو دونوں بازؤں سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا۔ کیا ہوا کیوں اتنے اتاؤلے ہو رہے ہیں ،ان کی بیگم سلمہ بھی میاں کی حالت دیکھ کر کچھ حیران تھیں۔کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ ارے! بس کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔تمہیں پتہ ہے کہ اب بقرعید نزدیک ہے تو منڈی کے دام تو آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اچھا جانور ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سعید صاحب سانس لینے کو رکے تو سلمہ بیگم نے بیزاری سے کہا تو اس میں نئی بات کیا ہے ؟یہ تو ہر سال کا ہی تماشہ ہے، جس چیز کا سیزن ہو اس چیز کے دام آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں دنیا بھر میں ان کے تہواروں پر سیل لگتی ہے چیزیں سستی کی جاتی ہیں کہ ہر شخص اپنا تہوار اچھی طرح منائے لیکن ہمارے ہاں ہر تہوار پر چیزیں اتنی مہنگی کر دی جاتی ہیں کہ لوگوں کا ا س تہوار کی خوشی منانا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔ پہلے پوری بات تو سنو ! سعید صاحب بے تابی سے اپنی بیگم کی بات کاٹ کر بولے۔
بھئی ہمارے آفس میں فاروق صاحب ہیں نا۔انہوں نے ایک کمیٹی شروع کی تھی آفس میں ،تو میں نے بھی اس میں کمیٹی ڈال دی تھی اور ان سے کہہ دیا تھا کہ مجھے بقرعید پر چاہیے، اللہ بھلا کرے ان کا آج یہ کمیٹی کھلی ہے اور مجھے یہ پیسے ملے ہیں، انہوں نے جیب سے پیسے نکال کر دکھائے تو سلمہ بیگم کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔چلیں یہ تو اچھا ہوگیا ایک کام تو آسان ہوا اور جناب آپ بڑے گُھنے ہیں ، مجھے ا س کمیٹی کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔
ارے بھئی رکو ذرا ،صبر کرو سعید صاحب نے مسکرا کر کہا ! پکچر ابھی باقی ہے میری بیگم۔۔۔۔۔ فاروق صاحب کے سالے کا کیٹل فارم ہے تو انہوں نے مجھے جانوروں کی تصویریں دکھائیں تو ان میں سے ایک گائے میں نے بھی پسند کر لی ہے، کل اسے دیکھنے جاؤں گا ،تو سمجھو یہ مرحلہ بھی آسان ہوا۔ارے واہ! اللہ تیرا شکر۔۔بھئی یہ تو آپ نے کمال ہی کر دیا۔
سلمہ بیگم خوشی سے نہال ہوگئیں۔ چلیں اسی خوشی میں میں آپ کو اچھا سا میٹھا بنا کر کھلا تی ہوں، کتنے عرصے سے میری یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اپنی گائے کریں لیکن گنجائش ہی نہیں بن پاتی تھی۔ اب اللہ کے کرم اور آپ کی سمجھداری سے یہ کام بھی اللہ نے کروا دیا۔ اب تو شکرانے کے نفل پڑھنا بنتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ خوشی خوشی اندر چل دیں۔
اگلے دن سعید صاحب ان سے کہہ کر گئے کہ میں آفس سے فاروق صاحب کے ساتھ ان کے سالے کے کیٹل فارم جاؤں گا۔ سلمہ بیگم گھر کے کاموں میں لگ گئیں۔ ابھی وہ ماسی سے کام کر وا ہی رہی تھیں کہ ان کا موبائل گنگنا اٹھا۔دیکھا تو نند کی کال تھی، اس نند سے ان کی کچھ زیادہ بنتی نہیں تھی، کیونکہ یہ زبان کی خاصی تیز اور طنزیہ گفتگو کی ماہر تھیں۔ بہر حال نہ چاہتے ہوئے بھی فون اٹھا ہی لیا۔۔فون کے اٹھاتے ہی ان کی نند کے رونے کی آواز نے ان کو شل کر دیا۔
کک کک کیا ہوا نعیمہ؟ تم رو کیوں رہی ہو؟ بھابھی ہم برباد ہو گئے تباہ ہوگئے۔ان کی نند نے روتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر سلمہ بیگم تو دہل گئیں دل پر ہاتھ رکھ کر بولیں ہوا کیا یہ تو بتاؤ۔ بھابھی یہ بتائیں بھیا جان کہاں ہیں؟تمہارے بھیا تو آفس گئے ہیں اور اس کے بعد انہیں کہیں کام سے جانا ہے۔ تم بتاؤ ہوا کیا ہے؟ بھابھی حماد کو کسی نے گولی ماردی ہے اس کی حالت نازک ہے اور وہ اسپتال میں زندگی موت کی کشمکش میں ہے۔ ڈاکٹر نے فوری دو لاکھ روپے جمع کروانے کو کہا ہے کہ اس کے بعد وہ ا س کا آپریشن کریں گے۔
نعیمہ نے دوسری بیوہ نند کے اکلوتے بیٹے کا نام لے کر یہ اندوہناک خبر سنائی۔ اف میرے خدا یہ کیا ہوگیا، سلمہ بیگم نے دکھ سے کہا۔ بھابھی آپ بھیا کو فون کر کے کہہ دیں کہ وہ فورا ہسپتال پہنچ جائیں، فریحہ کا تو حماد کے سوا کوئی اور سہارا بھی نہیں ہے بھابھی ، اگر اسے کچھ ہو گیا تو وہ تو مر جائے گی۔
اللہ نہ کرے بھئی اچھی بات منہ سے نکالو۔ سلمہ بیگم فکرمندی سے بولیں۔ اچھا تم فون رکھو میں تمہارے بھائی کو بتاتی ہوں۔اللہ رحم کرے شہر کا حال تو جنگل سے بدتر ہوگیا ہے کوئی والی وارث نہیں ہے اس شہرکا۔دوسرے دن حماد کا انتقال ہوگیا اور فریحہ کی حالت بے انتہا خراب ہوگئی ۔ایسے میں سعید صاحب نے قربانی کے لئے جمع کئے گئے پیسوں سے حماد کے جنازے کا انتظام کیا ، کیونکہ سب ہی سفید پوش لوگ تھے کسی کے پاس بھی اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس اچانک پیش آنے والے حادثے اور اس کے بعد کی آزمائش سے گزر سکتے۔
انہیں اپنی بیوی کا سوچ کر افسوس بھی ہورہا تھا کہ برسوں بعد اس کی خواہش پوری ہونے کا کوئی ذریعہ بنا لیکن …سلمہ بیگم کو جب یہ بات پتہ چلی تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے کسی قسم کا افسوس ظاہر نہیں کیا۔سعید صاحب نے ان سے وعدہ کیا کہ اگلے سال اگر اللہ نے توفیق دی تو وہ ان کی خواہش پوری کر دیں گے لیکن سلمہ بیگم نے اپنے شوہر سے کہا۔ سعید صاحب قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام تو نہیں بلکہ کسی کی ضرورت میں اپنی خواہش کو مار کر اس کی ضرورت کو پوری کرنا بھی قربانی ہے۔
یہ آزمائش اللہ کی طرف سے فریحہ کے ساتھ ساتھ ہماری بھی آزمائش تھی کہ ہمارا اپنا تکلیف میں تھا اور ہم اس کی تکلیف میں اس کا ساتھ دیتے ہیں کہ نہیں اور اللہ نے چاہا تو ہمیں اس کا بہترین اجر بھی ملے گا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میں اپنی برسوں پرانی خواہش پوری نہیں کر سکی، بلکہ مجھے یہ اطمینان ہے کہ ہم برے وقت میں اپنی بہن کے کام آگئے ورنہ سوچئے کہ ایسے وقت میں ہم بھی خالی ہاتھ ہوتے تو کیسی بے بسی ہوتی۔یہ اللہ کی طرف سے انتظام تھا جو ہم سمجھ نہیں سکے۔
اللہ کو ان پیسوں سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا، آپ فکرمند نہ ہوں میرے پاس اپنی بچت کے کچھ پیسے ہیں ہم ان سے گائے میں ایک حصہ تو لے ہی سکتے ہیں۔باقی اللہ اس کو قبول کرنے والا ہے۔سعید صاحب نے اپنی نصف بہتر کو مان سے دیکھا کہ کیسے اس نے ان کی عزت اور بھرم رکھا اور انہیں ان کی اپنی نظروں میں سرخرو کردیا تھا۔
عید قرباں کا مقصد محض جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ اپنے نفس اور اپنی انا کو ذبح کرنا ہے جہاں ہمارے ہاں قربانی کو اسٹیٹس سمبل بنالیا گیا ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہی ہمارا مقصد رہ گیا ہے، ایسے میں قربانی کا اصل مقصد اور جذبہ تو کہیں کھو گیا ہے، خاص کر خواتین دکھاوے اور نمود و نمائش کے لئے اپنے شوہر کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ کہیں سے ادھار لے کر ان کی خواہش پوری کریں اور وہ اپنے میکے، سسرال میں فخر سے سر اٹھا کر بتا سکیں کہ ہم نے اتنے کا جانور ذبح کیا۔ان کی انا کی یہ تسکین ان کے شوہر کے لئے اور ان کے اعمال نامے کے لئے کتنی بھاری ہوجاتی ہے یہ سوچنا پسند نہیں کرتیں۔
خدارا !اس وقت لوگ ایک وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں ایسے میں اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو خدا کا شکر ادا کریں ، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں اور اپنے آس پاس بھی نظر ڈال لیں۔ اگر آپ کہیں کسی حقیقی ضرورت مند کا سہارا بن سکتے ہیں تو ضرور بنیں۔ یقین جانئے یہ قربانی اور یہ مدد آپ کو اللہ کے ہاں اس قربانی سے زیادہ سرخرو کردے گی جو آپ لاکھوں روپے خرچ کر کے محض اپنی انا کی تسکین اور دکھاوے کے لئے کریں گے۔ قربانی ضرور کریں لیکن سب سے پہلے اپنے نفس اور اپنی اس انا کو قربان کریں جو آ پ کو سانس لینے نہیں دے رہی۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ کے پاس ہمارے جانور کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ صرف ہمارا تقویٰ پہنچتا ہے۔سورۃ الحج آیت نمبر 37 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ ہر گز نہیں پہنچتا اللہ کو ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن پہنچتا ہے اس کو تقویٰ تم میں سے اسی طرح اس نے مسخر کیا اس کو (جانوروں کو)تمہارے لئے تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی، اوپر اس کے، جو اس نے ہدایت دی تم کو اور خوشخبری دے دو احسان کرنے والوں کو۔‘‘۔
اللہ نے ہی ہمارے اوپر قربانی واجب کی اور اللہ نے قرآن میں جب واضح ہدایت دے دی کہ اسے تمہارے جانوروں سے کوئی مطلب نہیں بلکہ تمہاری نیت اور تمہارے تقویٰ سے مطلب ہے تو پھر اپنے آپ کو محض شوبازی اور دکھاوے سے ہلاکت میں ڈالا جائے یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ اللہ سے ہدایت طلب کریں اور یہ دعا کریں کہ اللہ ہماری نیت اور تقوی ٰکو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے تو سمجھیں اپنا بیڑا پار ہوگیا۔