• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اور ہمارے چچا ہمیشہ بیل لایا کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اپنا لڑکپن یاد کرتا ہوں، یادوں کی رسی کھولتا ہوں تو لوسن اور سوکھے چارے کی خوشبو سے ذہن مہک جاتا ہے۔ بیل کی گردن میں پڑی گھنٹی اور پیروں کی جھانجھر بج اٹھتی ہے۔ قربانی میں کئی دن باقی ہوتے، مگر بچوں نے ایک ہی رٹ لگائی ہوتی ہماری گائے کب آئے گی؟ جانور ابھی آیا نہیں کہ اس کی سجاوٹ کا سامان جمع ہونا شروع ہوجاتا۔ 

گلی میں کسی کے بکرا، گائے اور بیل گاڑی سے اترتا تو بچے شور مچانے لگتے۔ بچوں کی پڑھائی کیسی جا رہی ہے کہ بجائے منڈی کیسی جا رہی ہے؟ کا سیزن چل رہا ہوتا۔ بچوں کے غول کے غول جانوروں کے پیچھے ادھر سے ادھر شور مچاتے پھرتے۔ پہلے قربانی پر دکھاوا اور مقابلہ بازی نہ تھی، سنت ابراہیمی کے ساتھ نیت ابراہیمی بھی کار فرما رہتی۔ 

قربانی کی روح سادگی میں تھی۔ گوشت نہیں تلا کرتا تھا، نیت کو بانٹ میں رکھا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دس نمبر لیاقت آباد پر مسجد شہداء کے ساتھ بڑے گراونڈ میں منڈی لگا کرتی تھی۔ ہم سب چچا کے ساتھ منڈی جایا کرتے تھے۔ میں اور میرا چچازاد بھائی بچوں میں سب سے بڑے ہوتے۔

منڈی جانے کے لیے بچوں کے نام فائنل ہونے کے بعد، نہ جانے والے بچوں کو کوئی رشوت دی جاتی یا پھر گھر سے جاتے ہوئے اس بچے کو کسی برابر کے گھر لے جایا جاتا۔ دادی اماں، والدہ اور چچی ایک ایک بچے کو سمجھاتیں، ’’دیکھو جا تو رہے ہو۔ خبردار جو کسی نے بھائیوں کا ہاتھ چھوڑا‘‘۔ سمجھائے دے رہی ہوں جو کسی گائے بیل کے پاس گئے اور کوئی چھیڑ چھاڑ کی۔ ایسی لات پڑے گی کہ عید والے دن بستر پر ہو گے۔‘‘ سارے بچے فرمانبردار بنے ہوتے، ہر بات پر سر ہلا رہے ہوتے۔

بس میں بیٹھ کر الاعظم اسکوائر پر اترتے تو روڈ بری طرح جام ہوتا۔ سب کے چہرے خوشی سے کھل اور ناک کے نتھنے ایک عجیب سی خوشبو سے مہک اٹھتے۔ چلنے کو جگہ نہ ہوتی۔ منڈی تو اندر گراونڈ میں لگی ہوتی مگر روڈ پر بھی انہی کا قبضہ ہوتا۔ اندر کے بیوپاری باہر ایک دو بکرے لے کر آجاتے اور ایسا گاہک تلاش کرتے کہ جو باہر ہی باہر سے جانور خرید کر گھر جانا چاہتے ہوں مگر صاحب ہمارے چچا نے تو منڈی کے آخری جانور تک سے ہیلو ہائے کرنی ہوتی تھی۔

سب ہشاش بشاش نظر آرہے ہوتے۔ چچا رومال میں پیسے لے کر کس کے ہاتھ میں ایسے پکڑے ہوتے جیسے جانور کی رسی پکڑے ہوں۔ ہم بچوں کے لالہ بنے ہوتے۔ بچوں کی خواہش ہوتی کہ سب سے بھاری جانور لیا جائے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہ ہوتی کہ جانور کتنے دانت کا ہے۔ بس فکر یہ ہوتی کہ گلی میں سوزوکی سے جانور لے کر اتریں تو ہمارے دانت خوشی سے پورے نکلے ہوں۔

جانور کی خریداری میں بھاؤ تاؤ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، مگر چچا اس میں ماہر اور صابر دونوں تھے۔ شروع کا آدھا ایک گھنٹہ تو صرف مارکیٹ پرائس چیک کرنے میں لگ جاتا۔ گھر سے نہا دھو کر چلے تھے۔ اب سر اور چہرے پر منڈی کی دھول ہوتی اور گلا خشک ہوتا۔ 

چلتے چلتے دو ڈھائی گھنٹے ہوجاتے، تھکن سے برا حال ہوجاتا تھا، پیاس الگ ستا رہی ہوتی۔ چلنا محال ہوتا۔ جانور بندھے اور ہم کھلے پھر رہے ہوتے۔ جہاں چچا رکتے۔ ہم آس پاس کے پلنگ یا پھر کسی اینٹ یا پتھر پر بیٹھ جاتے اور جب چچا آگے چلنے کا کہتے تو اٹھنے کی ہمت نہ ہوتی لیکن اٹھتے آخر کیا کرتے۔

دو ڈھائی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی کسی جانور پر امید بر نہیں آتی۔ چچا اکیلے بات چیت کر رہے ہوتے اور ہم دعا پر دعا مانگ رہے ہوتے۔ لیجیے دعا قبول ہوئی اور چچا کی فاتحانہ آواز آتی، آجاؤ۔ ہم سب خوشی سے دوڑتے۔ اب جانور میں جان ہو کہ نہ ہو ہم سب میں جان آجاتی۔ 

چچا اور ہم سب مل کر جانور کو اس طرح چیک کرتے کہ کوئی ناقابل قربانی عیب نہ نکل آئے۔ جانور بیچنے والا پورا یقین دلاتا، مگر ہم کہاں ماننے والے تھے۔ جانور کو چلا کر دکھایا جاتا۔ دانت، کان اور سینگ خاص دیکھے جاتے۔ دانت ٹوٹا، کان کٹا اور سینگ ایلفی سے جڑا تو نہیں۔

اب چچا رومال سے نوٹ نکالتے اور دو تین مرتبہ گننے کے بعد اسے دیتے۔ سوزوکی ڈھونڈی جاتی۔ ڈرائیور منہ پھاڑ کر پیسے مانگتا تو ہم گلا پھاڑ کر اس سے بھاؤ تاؤ کرتے۔ سوزوکی میں جانور چڑھاتے تو بس یہی خوف رہتا کہ نہ جانے اس کے سینگ کہاں سما جائیں اور کہیں صورت حال" آ بیل مجھے مار" والی نہ بن جائے۔ چچا اور ایک دو بچے لے کر سوزوکی میں آگے بیٹھ جاتے۔ میں اور چچا زاد سوزوکی کے جنگلے میں سمٹ کر کھڑے ہوجاتے۔ گلی میں داخل ہوتے تو بچے ساتھ ساتھ دوڑتے۔ جب سوزوکی ایک جھٹکے سے روکتی تو لگتا کہ بیل ویسے ہی آ گرے گا۔

چچا سوزوکی سے بڑی شان بے نیازی سے اترتے اور گلی میں کھڑے لوگوں پر طائرانہ نظر ڈالتے۔ گھر اور گلی کی عورتیں گیٹ کی اوٹ سے جانور کا ایسے دیدار کرتیں جیسے محلے میں کوئی لڑکی بیاہ کر آئی ہو۔ گلی میں کھڑے لوگ ایک دوسرے سے کہتے کہ، ’’اس مرتبہ یہ اتنا تگڑا جانور کہاں سے پکڑ لائے‘‘۔ دوسرا جواب میں کہتا، ’’بیسن کا پانی بھرا ہے پیٹ میں، صبح دیکھنا کیسی ہڈیاں نکلی ہوں گی اس کی۔

اسی اثنا میں چچا کی آواز گونجتی: ارے بھائی کوئی پانی تو دے دو اسے، چارہ لے آؤ۔ صبح سے بھوکا پیاسا ہے۔ ہم سب تھک چکے ہوتے اور ادھر ادھر چھپتے لیکن چچا کے ہاتھ کوئی نہ کوئی آ ہی جاتا۔ ایسی ہوتی تھی ہمارے بچپن کی عید قرباں۔