کراچی ( محمد مہدی / نیوز ڈیسک) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اچانک المناک رحلت کے بعد ایران میں قبل از وقت صدارتی انتخاب آج (جمعہ کو) ہورہے ہیں ، اور اس انتخابی عمل کے ساتھ ہی وہ بحث بھی دوبارہ سامنے آ گئی ہے کہ آیا قدامت پسند مؤقف رکھنے والا اس منصب پر برا جمان ہوگا یا اصلاح پسند صدر ایران کی انتظامی قیادت کرے گا ۔ ان انتخابات کیلئے چار خواتین سمیت اسی افراد نے اپنی رجسٹریشن کروائی تھی ۔ ان اسی میں سے 6؍ افراد کو گارڈین کونسل نے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی ہیں جبکہ سابق صدر احمدی نژاد ، ایرانی پارلیمنٹ کے سب سے طویل عرصے تک اسپیکر کے منصب پر فائز علی لاریجانی ، صدر روحانی کے دور کے نائب صدر جہانگیری جیسے افراد کو نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ انتخاب کیلئے 6؍ امیدواروں کی منظوری دی گئی تھی تاہم ایک روز قبل 2امیدوار امیر حسین غازی زادے ہاشمی اور علی رضا زکانی دستبردار ہوگئے اب چار امیدوارسعید جلیلی، محمد باقر قالیباف، مسعود پزیشکیان، مصطفیٰ پور محمدیمدمقابل ہیں ۔ ایران میں اصلاح پسند طویل عرصے سے انتخابی عمل کے ذریعے اپنی پالیسوں کے نفاذ کیلئے متحرک ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک 30؍ رکنی ریفارمسٹ فرنٹ بھی تشکیل دے رکھا ہے ۔ یہ فرنٹ اس وقت مسعود پیزکشیان جو صدر خاتمی کے دور میں وزیر محنت تھے کی حمایت کر رہا ہے۔ ان حامیوں میں سابق صدور محمد خاتمی ، حسن روحانی اور سابق وزیر خارجہ جواد ظریف جیسے لوگ شامل ہیں ۔ گزشتہ صدارتی انتخاب میں مسعود پیزکشیان کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا مگر اس بار ان کو اہل قرار دیا گیا ہے ۔ مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں بتدریج رائے دہندگان کی شرح گرتی چلی جا رہی ہے اور اگر اس بار بھی کسی اصلاح پسند کو انتخابی معرکے میں اترنے کی اجازت نہ دی جاتی تو یہ شرح مزید گر جاتی جس کی وجہ سے انتخابی عمل کی نمائندہ حیثیت پر بہت سارے سوالات کھڑے ہو جاتے ۔ پیزکشیان نے انتخابات میں اپنی توجہ خواتین ، نوجوانوں اور لسانی و علاقائی بنیاد پر موجود چھوٹے گروہوں پر مرکوز رکھی ہے اور ان کو یہ بھی فائدہ جاتا ہے کہ وہ واحد اصلاح پسند امید وار ہے چنانچہ ان کے حامی رائے دہندگان کے آپس میں ووٹ تقسیم ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ دوسرے اہم امیدوار قدامت پسند باقر قالیبوف پارلیمنٹ کے اسپیکر تہران کے سابق میئر اور پاسداران انقلاب سے ماضی میں منسلک رہے ہیں ۔ خیال ہے کہ ان کو طاقت ور حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے مگر وہ تنہا قدامت پسند امید وار نہیں ہے اور اس وجہ سے اس کا بہت امکان ہے کہ قدامت پسند ووٹ تقسیم ہو جائیں گے ۔ دوسرے قدامت پسند امید وار سعید جلیلی ہے جو کہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے مغرب سے مذاکرات کے حوالے سے نمائندہ تھے اور اس وجہ سے ہی ان کے خیالات میں ایک سخت گیری کا عنصر بہت نمایاں محسوس ہوتا ہے ۔ باقر قالیبوف اور سعید جلیلی میں شخصی کشمکش کے ساتھ ساتھ پالیسی امور پر بھی اختلاف ہے ۔ باقر قالیبو ف اور سعید جلیلی، تجارت کو فروغ دینے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے امریکی پابندیوں سے نجات حاصل کرنے کی اہمیت پر مختلف رائے رکھتے ہیں ہیں۔ باقر قالیبوف اسے ایک ضرورت قرار دیتے ہیں جبکہ سعید جلیلی یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ایران کے مسائل کا حل گلوبل ساؤتھ کے ساتھ شراکت ، گھریلو پیداوار اور تجارت کو بہتر بنانے میں پوشیدہ ہے۔