پروفیسر(ر) سراج
’’نوجوانوں کو کمائو پوت بناؤ‘‘ اس پر کم و بیش تمام معاشی، معاشرتی ماہرین متفق نظر آتے ہیں۔ جس کا اندازہ مختلف پلیٹ فارمز پر ہونے والے سیمینارز، فورمز اور مذاکروں وغیرہ کی رپورٹوں سے بہ خوبی ہوتا ہے۔ اب وہ نوجوان تعلیمیافتہ ہوں، نیم خواندہ ہوں یا اَن پڑھ۔ اس سے اہل خانہ کا معاشی بوجھ کم ہوگا۔
سادہ سا اُصول ہے کہ اگر گھر کا ہر بالغ شخص کما رہا ہو تو خوش حالی اس کی دہلیز پر ضرور آئے گی۔ ملک بھی ’’گھر‘‘ ہوتا ہے۔ اگر اس کے تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں اور روزگار پھر بھی نہ ملے، یوں وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے تو حاصل کیا ہوگا، ماسوائے اس کے کہ وہ یا تو غلط راہ پر چل پڑیں گے یا ذہنی مریض ہو جائیں گے۔ بے کار بیٹھے رہنے سے بڑے سے بڑا معاشی ارسطو یا بھاری سے بھاری سرمایہ کاری ملک کی تقدیر سنوار سکتی ہے نہ نوجوانوں کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن ہمارے حکم رانوں اور پالیسی سازوں نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور انہیں قومی ترقی کے دھارے میں لانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی تلاش میں ادھر سے اُدھر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اپنے پڑوسی ملک بھارت کو دیکھیں ، ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں بے روزگاری بڑا مسئلہ نہیں رہی۔
وہ بھی غربت و افلاس میں گھرا ہوا تھا لیکن انہوں نے نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھائے، آئی ٹی کے مفت کورسسز کرائے۔ آج نہ صرف ا ن کے آئی ٹی ایکسپرٹ، گائوں، دیہات تک کے لاکھوں نوجوان چھوٹے پیمانے کے بزنس مین اور صنعت کار بن چکے ہیں۔ اب وہاں بے روزگار نوجوان نہیں ہیں۔ سب کی اپنی اپنی منزلیں ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان سڑکوں پر رُل رہے ہیں۔‘‘
جو برسرروزگار ہیں، ان کی ملازمت بھی خطرے میں ہیں کہ مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے اداروں میں چھانٹیاں ہو رہی ہیں جس کا نشانہ زیادہ تر نوجوان بن رہے ہیں جن میں سکت ہے وہ خود سے چھوٹا موٹا کام کر رہے ہیں لیکن اس سے ان کا مستقبل تو سنور نہیں سکتا۔
گزشتہ سال کے وسط سے اور رواں سال کے آغاز سے اب تک ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے دیار غیر چلے گئے ہیں، اب وہ قرض لے کر گئے یا اپنا قیمتی سامان گروی رکھوا کر گئے، یہ الگ بات ہے لیکن اپنی سرزمین تو چھوڑ دی۔ اب وہ اپنی تعلیم کا استعمال دیار غیر میں کریں گے اور اپنے ملک کے بجائے غیروں کو فائدہ پہنچائیں گے۔
اگر تعلیمی یافتہ نوجوانوں کو مناسب وسائل ، روزگار فراہم کرکے قابل عمل اہداف دیئے جائیں تو یقیناً یہ ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہر صوبے میں نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے اور آئی ٹی کے فری کورسز کرانے کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے ۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ دوران تعلیم ہی انہیں یہ سہولتیں فراہم کی جائیں ، تاکہ جب وہ تعلیم مکمل کرلیں تو ڈگری کے ساتھ اُن کے پاس ہنر بھی ہو، تاکہ وہ سڑکوں پر خوار ہونے کےبجائے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور تعلیم سے فارغ ہوتے ہی کمانے لگیں۔
اپنے ہنر کو کمائی کا ذریعہ بنائیں، ساتھ کسی ادارے، کمپنی یا کالج، یونی ورسٹی میں بھی ملازمت کی کوشش کرتے رہیں۔ لیکن اس وقت مجموعی طور پر جو صورتحال ہے، مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے، اس نے پڑھے لکھے پریشان حال نوجوانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی مفلوج کر دی ہیں۔
حالانکہ مہنگائی کاطوفان پوری دنیا میں آیا ہوا ہے لیکن وہاں حالات ایسے نہیں ہیں جیسے اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ مایوس نوجوان خود کشیاں بھی کر رہے ہیں اور جرائم بھی، نشہ بھی کر رہے ہیں اور ذہنی توازن بھی کھو رہے ہیں۔ گرچہ ماضی میں نوجوانوں کے لئے روزگار اسکیمیں متعارف بھی ہوئیں لیکن صرف کاغذی کارروائیوں کے بعد فائلوں میں بند ہوگئیں۔ کچھ اسکیمیں نافذ ہوئیں تو اُن پر صحیح طرح عمل درآمد نہ ہوسکا۔ پیلی ٹیکسی، فری لیپ ٹاپ کی تقسیم کا فائدہ کس کو ہوا؟ اس کا تو کسی کو علم ہی نہیں۔
اب تو نوجوانوں کا اعتماد ہی متزلزل نہیں ہورہا ، بے یقینی کی کیفیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا واحد حل تو یہی ہے کہ انہیں ’’کمائو پوت‘‘ بنائیں، جو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کےلئے نوجوانوں کو بلاسود چھوٹے قرضے دیئے جائیں، انہیں ہنر مند بنانے کے لئے مفت کورسز شروع کئے جائیں۔
آغاز کرنے کی دیر ہے ، نوجوان خود دل چسپی لینے لگیں گے۔ جب وہ کسی کام کا یا کاروبار کا نچلی سطح سے ہی آغاز کریں گے اور روپے ہاتھ میں آئیں گے تو چار پیسے کمانے کا سوچیں گے، رفتہ رفتہ ہندسوں میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ان کی پریشانیاں ختم ہوتی جائیں گی۔
جب ایک نوجوان اپنے کام میں فائدہ دیکھے گا تو وہ اپنے ساتھیوں کو بھی بتائے گا یوں رفتہ رفتہ وہ مسائل کی دلدل سے نکلیں گے، گھر کے حالات بہتر ہوں گے اور ملک کی تقدیر بھی سنورتی جائے گی۔