حافظ بلال بشیر
غصہ ایک چنگاری کی طرح ہے، جس طرح ایک چنگاری پورے جنگل کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔ اسی طرح غصہ معاشرے میں بد نظمی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ معاشرے میں افرا تفری ، فرسٹریشن ، بے صبری عدم برداشت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ شائشتگی کہیں غائب ہوگئی ہے، مخالف کچھ سننےکو تیار ہی نہیں ہوتے، معمولی باتوں پر جذباتی ہوجانا، بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنا ہر شعبہ زندگی میں نظر آتا ہے۔
یہ رویہ اب تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ آپس میں گفتگو کا معیار، ادب و احترام، باہمی عزّت و وقار کا پاس و لحاظ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود مسئلے مسائل بھی کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ مایوسی کی کیفیت اپنی انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ ہر شخص مسلسل ذہنی اضطراب کا شکار ہے۔ ہر طرح کا خوف ذہنوں کو جکڑے ہوئے ہے۔
کبھی بجلی کی آنکھ مچولی تو کبھی ٹریفک جام اعصاب کا امتحان لیتے ہیں۔ کبھی بیروزگاری تو کبھی مہنگائی نےجینا حرام کر دیا ہے۔ یہ اور اس جیسے دیگر مسائل ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، پھر کسی چھوٹی سی بات پر انتہائی رد عمل اسی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
جس کا مظاہرہ آئے دن سڑکوں پر دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر، جس ملک کے نوجوان مایوسی کا شکار ہوں، جنھیں اپنا مستقبل روشن نظر نہ آتا ہو، تو اس طرح کی صورت حال تو یقینی پیدا ہوگی۔ ان میں غصہ محرومیوں اور ناکامیوں کا بنیادی سبب ہے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ باصلاحیت نوجوان غصّے کے ایک جھونکے میں بہہ جانے کے باعث اپنا اونچا مقام کھو دیتے ہیں یا مقام حاصل کرنے کے موقعے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی گھر ہوتی ہے،اس پلیٹ فارم پر اگر نئی نسل کی تربیت کردی جائے تو پھر وہ معاشرے کے بہترین افراد بن کر سامنے آتے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تربیت کایہ عمل کافی کمزور ہوچکا ہے۔ آج گھروں میں بچے اور بڑےمل جل کر بہت کم بیٹھتے ہیں۔
اکثر یہ دیکھاگیا ہے کہ گھر میں والدین اگر موبائل میں مصروف ہوں اور بچہ آکر کوئی بات کرے تو ان کا پارہ چڑھ جاتاہے ۔وہ برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور بچے کو جھڑک دیتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ بھی اگر کلاس میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھیں توبڑی جلدی اشتعال میں آجاتے ہیں۔
جب ان کا رویہ برداشت اور تحمل سے خالی ہوگا تو پھر نوجوان نسل بھی ایسے ہی رویے کو اپنائے گی۔ اکثردیکھا گیا ہے کہ نوجوان مسائل پر قابو پانے کی بجائےدوسروں پر غصہ اتار دیتے ہیں۔ یہ ایک منفی ردعمل ہے اور اضطراب کی صورت میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ جب انسان غضب ناک ہو جاتا ہے تو وہ آدمی شیطان کے ہاتھ میں یوں ہوتا ہے جیسے بچوں کے ہاتھ میں کھلونا۔
یاد رکھیں، آپ کا غصہ لوگوں کو آپ سے دُور کر سکتا ہے، لہٰذا ایسے موقع پرصبر و تحمل سے کام لیں۔ تنقید سننا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔اسی لیے اکثر نوجوان اپنے اوپر کی جانے والی تنقید برداشت نہیںکرتے اور جلد غصے میں آجاتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ غصہ کرکے سزاخود کو دینا ہے۔ اپنے غصے پر قابو پانا سیکھیں اور زندگی کو پرسکون اور پرامن بنائیں۔
سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیں کہ غصے کی نوعیت کیا ہے، اس سے نجات کا بہترین حل تو یہی ہے کہ مشاورت کا عمل اپنائیں، قریبی دوست رشتہ دار سے مسئلہ ڈسکس کریں۔ چیخ چلا کر، گالیاں دے کر غصے کا اظہار ہوجائے گا لیکن مسئلہ تو جوں کا توں ہی رہے گا، لہٰذا اس کے حل کی طرف دھیان دیں اپنی انرجی ضائع نہ کریں۔
کبھی کبھار شاید آپ اِس لیے بھی غصے میں آ جاتے ہوں گے کہ معاملے کے کسی ایک پہلو کو دیکھ رہے ہوتے ہوں گے یعنی اُس پہلو کو جس کا آپ پر اثر ہوتا ہے لیکن دوسرے پہلو کو دیکھنے کی کوشش بھی کریں۔صورتحال کے بگڑنے سے پہلےاس جگہ سے چلے جانا بہتر ہوتا ہے۔
اِس کے بعد معاملے کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا غصہ بڑھانے کی بجائے کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو جائیں۔ لمبی لمبی سانس لیں اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کریں، کچھ ہی دیر بعد آپ کو محسوس ہو گا جیسے آپ پرسکون ہو رہے ہیں۔
ماحول کی تبدیلی آپ کو تلخی سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ہو سکے تو اس صورت میں جم یا پارک چلیں جائیں، فوری طور پر پانی پئیں یہ آپ کے اعصاب کے تناؤ کو کم کرنے میں فوری مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ اگر آپ لیٹے ہیں تو اٹھ کر بیٹھ جائیں اور اگر بیٹھے ہیں تو کھڑے ہوجائیں، خود محسوس کریں گے کہ غصہ کم یا ختم ہوگیا ہے۔
آپﷺ اجنبیوں کے ناشائستہ طرزِ تکلم اور بدتہذیبی سے سوال کرنے پر بھی تحمل کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ یقیناً بڑا انسان وہ ہی ہوتاہے جو برداشت کرتا ہے معاف کر دیتا ہے۔