اسلام آباد(رپورٹ:۔رانا مسعود حسین/ ایجنسیاں )سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں(پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ)اراکین کی بنیاد پر تخیلق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن /پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل اور سپیکر خیبر پختونخواہ اسمبلی کی جانب سے دائرکی گئی اپیلوں کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے 2018 اور 2024 میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں الاٹ ہونے کا فارمولا اور دستاویزات طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی ہے ۔دوران سماعت جے یو آئی نےمخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کی حمایت کر دی جبکہ پی ٹی آئی کے بیرسٹرگوہر نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حوالے سے دستاویزات عدالت سے چھپائیں، جے یو آئی ( ف) کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے بالکل ٹھیک کام کیا، جس پر جسٹس منیب نے جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ سے استفسار کیا کہ کل ٹی وی پر فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس چل رہی تھی، آپ کا موقف تو اس سے بالکل مختلف ہے ۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشن دی کہ’’ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کراسکی، ہارنے والا کہتا ہے الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے،دوران سماعت آزاد امیدواروں کی حیثیت کے حوالے سے ججز نے متعدد ریمارکس دیے اوراستفسار کیے، جسٹس عائشہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن جسے چاہے آزاد امیدوار بنادے، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا آزاد امیدواروں نے فیصلہ چیلنج کیا؟ جسٹس منصورعلی خان کا کہنا تھا کہ ، آزاد امیدواروں کی حیثیت کسی سے کم نہیں، جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چھ امیدواروں نے پارٹی سے وابستگی کا ڈکلیریشن دیا انہیں بھی آزاد امیدوار قرار دے دیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات منعقد نہیں کروائے تھے جس کے باعث ڈس کوالیفائی ہوئے ہیں ، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہیں بھی کسی پارٹی کو ڈس کوالیفائی تونہیں کیاگیاتھا، الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے اور پارٹی کو ڈس کوالیفائی کردیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ’’کوئی الیکشن کمیشن کی حیثیت کو سمجھتا ہی نہیں ،ایک اور مقام پر انہوں نے کہا کہ کچھ غلط ہوا تو اڑا دینگے۔ دوران سماعت حکومت پنجاب اور حکومت بلوچستان کے وکلا ء نے اٹارنی جنرل (وفاقی حکومت کے چیف لاء افسر )کے دلائل اختیا رکرلیے ہیں ، جمیعت العلمائے اسلام (ف ) سمیت دیگر فریق جماعتوں کے وکلا ء نے الیکشن کمیشن کے دلائل اختیار کرلئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا ء (حکومت خیبرپختونخوا ء کے چیف لاء افسر )نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے دلائل کو اختیار کرلیا ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ اسے بالکل اڑا دے گی، الیکشن کمیشن نے کوئی غیر آئینی کام کیا ہے تو بتائیں؟الیکشن کمیشن کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں ہے ؟ اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک مقدمہ اس عدالت میں نہیں آئے گا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے ہیں، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی ہے، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والایہی کہتاہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحی آفریدی،جسٹس امین الدین خان،جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس اطہر من اللہ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس شاہد وحید،جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 13رکنی فل کورٹ بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے لا افسر سکندربشیر سے استفسار کیا کہ آپ کتنا وقت لیں گے تو انہوںنے کہا کہ میں تیس منٹ میں دلائل ختم کردوں گا، انہوںنے کہا کہ میںچار نکات پر بات کروں گا،الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہیں۔