کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) شہر قائد میں بارش کی پیشگوئی کے باوجود گندگی اور مچھروں کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کا فقدان ہے جس سے مختلف ڈینگی ،ملیریا ، چکن گنیا اور لشمینیا کے وبائی صورت اختیار کرنے خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
شہر میں جا بجا گندگی بکھری ہے ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، سیوریج کا پانی کھڑا ہے ، ایسے میں اس پانی پر مچھروں کی بہتات ہے لیکن محکمہ صحت سندھ اور متعلقہ ادارے مچھروں کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ اسپرے مہم اور لاروا سائیڈل ایکٹیویٹی نہیں کررہے جو ڈینگی ، ملیریا، چکن گنیا اور لشمینیا سمیت دیگر دیگر وبائی امراض کے پھیلاؤ کا پیش خیمہ ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے شعبہ ویکٹر بورن ڈیزیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سید مشتاق احمد شاہ لکیاری کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ مچھر مار اسپرے اور لاروا سائیڈل ایکٹیویٹی کرنا ان کا کام نہیں یہ کام میونسپل کمیٹی کرتی ہے ، انہوں نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے اینٹامولوجیکل سروے کرایا تھا ، مختلف اضلاع کے صحت افسران کوادویات دی ہیں جو ابھی اپنا کام شروع کریں گے جبکہ مچھر دانیاں بھی چار اضلاع میں تقسیم کی ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال ملیریا سے 7600افراد متاثر ہوئے ، ڈینگی کے381 کیسز اور ایک ہلاکت رپورٹ ہوئی جبکہ چکن گنیا کے 113 کیسز سامنے آئے ۔
واضح رہے کہ یہ وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد اس سے زیادہ ہیں ،کراچی میں ملیریا ، ڈینگی اور چکن گنیا سے شہری تیزی سے متاثرہورہے ہیں اس لئے متعلقہ اداروں کومچھروں کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنا ہوں گے ۔
دوسری جانب ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے جنگ کو بتایا کہ ڈینگی وائرس کا موسم مون سون کے بعد اگست سے شروع ہوتا ہے، اکتوبر اور نومبر میں یہ شدت اختیار کرکے اس قدر تیزی سے پھیلتا کہ اسے قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ وبائی صورت اختیار کرجا تاہے۔
اس کے تدار ک کے لئےحکومت کو چاہیے کہ اپریل ، مئی اور جون میں بارش سے قبل ہی لاروا کو ختم کردے تاکہ ڈینگی وائرس پھیل نہ سکے،بارشوں کے بعد پانی کھڑا رہتاہے جس پر گندگی ہوتی ہے،مچھر انڈے دیتے ہیں اور 5 سے 7 دن میں بڑی تعداد میں مچھر جنم لیتے ہیں جبکہ مکھیاں بھی بنتی ہیں جن سے ٹائیفائیڈ، ڈائریا اور پیٹ کے امراض پھیلتے ہیں اس لئے گندگی ، مچھر اور مکھیوں کے خاتمے کےلئے اقدامات کیے جائیں۔