سیما بانو
آج کے نوجوان کو مختلف محاذوں پر ایک ساتھ کئی چیلینجز کا سامناہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، پہلے کے مقابلے میں ان کو آگے بڑھنے کے بے تحاشہ مواقع موجود تو ہیں، مگر مقابلے کی فضا بھی سخت ہوگئی ہے۔ گرچہ ان کے عزائم بلند ہیں اور پاکستان سے محبّت ان کی طاقت ہے لیکن اگر ان کو صحیح اور بروقت سمت نہ دکھائی گئی تو ان کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔
ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔فلاسفر سی ایس لوئس نے کہا تھا کہ ’’تم واپس نہیں جاسکتے کہ ابتدا کو بدل دو لیکن تم جہاں ہو وہاں سے شروع کرکے اختتام کو تبدیل کر سکتے ہو۔‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو وہ پلیٹ فارمز میسر ہوں جہاں وہ بلاجھجک، پُراعتماد انداز میں اپنی محنت، لگن اور بھرپور توجہ کے ساتھ چیلینجز سے گھبرائے بغیران پر کام کر سکیں۔حکومتی سرپرستی حاصل ہو تو نوجوان اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ملک کو مشکل معاشی صورتحال سے نکال سکتے ہیں لیکن ان کے لیے وہ ماحول نہیں جس سے ان کی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا، حالاں کہ ہر شعبے میں باصلاحیت نوجوان ہیں‘ مگر اُن سے کام نہیں لیا جارہا۔
یہ المیہ اُسی وقت ختم ہوسکتا ہے ‘جب صلاحیت کومحض کافی نہ سمجھیں ‘بلکہ ایک قدم آگےبڑھ کر اُس سے مستفید بھی ہوں۔نپولین بونا پارٹ کی بات بالکل درست ہے کہ،’’ کوئی بھی قابلیت موزوں مواقع کے بغیر زیادہ اہم نہیں۔‘‘
تھوڑی توجہ اور محنت سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ محض صلاحیت کا نہیں‘ بلکہ مہارت کا حامل ہونا بھی ضروری ہےجب کوئی کچھ کرے گا تب ہی دنیا کو اُس کا علم ہوگا۔ بہتر مستقبل کےلئے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتبار کرتے ہوئے ایسے مواقع پیدا کرنے ہوں گے جس میں وہ دنیا کے بدلتے حالات کے پیش نظر خود کو تیار کر سکیں۔
نوجوان بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، منصوبے بنائیں، کوشش کریں، کامیاب بھی ہوں گے، ناکام بھی ہوں گے لیکن تب ہی زندگی کی کامیابی کی بنیاد رکھ یں گے اگر آپ اس انتظار میں رہے کہ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں تو یاد رکھیں کہ بڑھاپے میں ورزش بڑی مشکل سے کی جاتی ہے۔
انسان کی جتنی ذہنی جسمانی اور سائیکالوجیکل توانائی ہوتی ہے و ہ جوانی کی عمر میں ہوتی ہے، لہذا خود کو ذہنی طور پر تیار کریں، اپنے خیالات کو اپنی منزل کے مطابق ڈھالیں، سوچیں کہ کیسے آگے بڑھ سکتے، کس طرح کامیاب ہو سکتےہیں۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا جال بنئیے جو آپ کی منزل حاصل کرنے میں مدد کرسکیں، خود بھی محنت کیجئیے اور دوسروں کو بھی محنت کرنے کی تلقین کیجئیے۔
خواب وہ نہیں جو سوتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں بلکہ خوا ب تو وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے، ہمیشہ کوشش کرنے، جستجو میں رہنے کی طرف راغب رکھتے ہیں، ایڈیسن نے پہلے خواب دیکھا تھا کہ کوئی ایسی چیز ہو جو رات کو دن میں بدل دے، اس خواب کو پورا کرنے میں اس نے دن رات لگا دیئے،یہاں تک کہ وہ اس کو پورا کرنے اور کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
خود کو جانئیے، اپنے اندر کے انسان کو پہچانئے، اس شخص کو تلاش کیجیے جو آپ کے اندر ہے، اس کو دریافت کیجئے، اپنی زندگی کے واضح مقاصد کا تعین کر کے اُن کے حصول کےلئے جامع طریقہء کار بنائیں تا کہ اپنی پسند، شخصیت اور ذہانت کے مطابق موزوں ترین پیشے اور شعبے کا انتخاب کر سکیں۔ یہ جدوجہد کا دور ہونا چاہیئے۔
حکومت کو ان کے لیے بہت سے دروازے کھول دینا چاہیے۔ انہیں جتنی سہولیات دینے کی کوشش کی جائے گی یا جس قدر ان کےلئے مواقع پیدا کیئے جائیں گے، ملک اسی تیزی سے آگے بڑھے گا ملکی معیشت ترقی کرےگی ۔یہ نوجوان ہی ہوتے ہیں جو اپنی قوت بازو سے کچھ کر دکھانے کےلئے کمر کس لیتے ہیں۔
اسکول و کالج میں ہی نوجوانوں میں اندر سائنسی ایجادات سے آگاہی اور نئی ایجادات کےلئے ماحول مہیا کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اس سے نہ صرف نوجوان اپنی شناخت بنائیں گے بلکہ بہتر روز گار بھی حاصل کرسکیں گے۔ ضرورت بس مصمم ارا دہ ‘ انتھک محنت اور مسلسل کوشش کی ہے۔