• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہلا خضر، کراچی

موجودہ دور میں معاشی منظر نامے میں نمایاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔عالمی سروے کے مطابق پاکستان دنیا کی ساتویں باصلاحیت قوم ہے ۔ خاص طور پر نوجوان ایک قابل عمل کیریئر کے آپشن کے طور پر انٹرپرینیورشپ کو اپنا کر اس تبدیلی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف ملک کی معیشت کو بدل رہا ہے بلکہ نوجوان نسل میں جدت، تخلیقی صلاحیتوں اور خود انحصاری کو بھی فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

گلوبل انٹرپرینیورشپ مانیٹر (جی ای ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 30 فیصد سے زیادہ پاکستانی نوجوان اپنا کاروبار شروع کر رہے ہیں۔ کاروباری جذبے میں اس اضافے کو ذیل میں دیئے مختلف عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

1۔ معاشی ضرورت: بے روزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے بہت سے نوجوان کمائی کے مواقع خود پیدا کر رہے ہیں۔

2۔ٹیکنالوجی تک رسائی: اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا، اور ای کامرس پلیٹ فارمز کے وسیع استعمال نے نوجوانوں کوعالمی سامعین اور قیمتی وسائل تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے۔

3۔ثقافتی تبدیلی:سرکاری ملازمت کی تلاش کی روایتی ذہنیت آہستہ آہستہ اب ای کامرس کی طرف راغب ہورہی ہے، آن لائن کاروبار کو پاکستان میں تیزی سے حاصل ہوتی مقبولیت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دکان کرائے پر لینے کی پریشانی اور نہ ہی پگڑی دینے کا جھنجھٹ۔آن لائن ای کامرس کی ویب سائٹ کھول کر نوجوان دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔

ڈگریاں اٹھا کر نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرنا اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ آج کے نوجوانوں کے لیے ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا ای مارکیٹنگ کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں۔ وہ اپنی اسکلز ، ذہانت اور حاضر دماغی سے ای مارکٹنگ کی فیلڈ میں لاکھوں روپے کما سکتےہیں۔ بہت سےادارے بھی نہائیت مناسب فیس لے کر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے کورسسز کروا رہے ہیں۔ای بزنس کا آغاز محدود سرمائے کم وقت میں بہترین منافع بخش کاروبار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اپنا کاروبار کرنے والے چند قابل ذکرنوجوانوں کی مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

پاکستان کے سب سے کم عمر ای بزنس کمپنی HMN گروپ آف کمپنیز کے C.E.Oاور بانی آن لائن خریداری کے فرسٹ ریٹ گروپ آف کمپنیز کے مالک اٹھارہ سالہ محمد نافع اس وقت نوجوانوں کے لیےسپر رول ماڈل ہے ۔بے شمار یوتھ آرگنائزیشنز اسے موٹیویشن لیکچرز کے لیے اپنے پروگرامز میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا باعث اعزاز سمجھتی ہیں۔

یہ موجودہ دور کی حقیقی زندگی کی وہ سچائی ہے جسے سن کر یقینا مایوسی کا شکار نوجوان آگے بڑھنے اورکچھ کر دکھانے کے لیے حوصلے کشید کر سکتے ہیں۔

محمد نافع نے اپنی محنت اور مستقل مزاجی سے پورے پاکستان کا سر فخر سے اونچا کر دیا ۔ صرف13 سال کی عمر میں آن لائن کاروبار شروع کیا تھا۔لوگوں نے اس کی نو عمری ، ناتجربہ کاری اور ایک ہزار کے قلیل سرمائے کی انویسمنٹ پر اس کا خوب مذاق اڑایا۔ لیکن محمد نافع نے تحمل سے سب کی باتیں سنیں، مشکلات برداشت کیں لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا۔ ہمت، لگن اور جستجو کی بدولت اس نے وہ حیرت انگیز کارنامے انجام دیئے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہےکہ، ر استے کتنے ہی کٹھن ہوں ہمت اور لگن شامل حال ہو تو منزل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ایک اور نمایاں نام ،زوہیب احمد کا ہے جو PakWheels کا بانی ہے ، جس نے گاڑیوں کی خرید و فروخت کو آن لائن کے ذریعے آسان بنایااور آن لائن مارکیٹ میں بڑی کامیابی سے اپنی جگہ بنائی-

سعد حامد جوڈیموکریٹیا کے بانی ہیں، یہ ایک سیاسی کنسلٹنسی (consultancy) فرم ہے جس میں عدالتی معاملات او رڈیٹا اینالیٹکس کا استعمال کرتی ہے تاکہ حکومت کی مدد ہو اور بہتری لائی جا سکے۔

صبا گل،popinjay کی بانی، انہوں نے عورتوں کو با اختیار بنانے کے لیے پلیٹ فارم بنایا ہے، جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے کما سکیں یہ سماجی ادارہ خواتین کاریگروں کو اپنے ہاتھ سے تیار کردہ مصنوعات کو عالمی سطح پر فروخت کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

نوجوان کاروباری افراد نہ صرف ملازمتیں پیدا کر رہے ہی ںبلکہ معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، ساتھ وہ اپنے منصوبوں کے ذریعے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور ماحولیاتی پائیداری جیسے اہم مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔

تاہم، ہونے والی پیش رفت کے باوجود، اب بھی بہت سے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ:

فنڈنگ تک رسائی۔ نوجوان آئیڈیاز تو بہترین بناتے ہیں لیکن اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار سرمایہ نہیں ہوتا۔

اکثر نیم متوسط گھرانوں کے نوجوان تو سرمایہ جمع کرنے کے خیال سے ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں کیونکہ انھیں نہ تو گھر میں اور نہ ہی خاندان میں کوئی ایسا وسیلہ نظر آتا ہے جو ان کی صلاحیتوں پر اعتبار کرتے ہوئے انھیں درکار سرمایہ فراہم کرنے کا رسک لے۔ یہی سوچ اور حالات ہوتے ہیں جن کے باعث بہت سے نوجوان اپنا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔

بہت سے نوجوان کاروباری افراد ( وینچر کیپیٹل )سے اسٹارٹ اپ کے لیے رسائی اور فنڈ حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاو ہ بنیادی انتظامی ڈھانچہ اور خدمات جو کسی ملک یا تنظیم کو آسانی اور سہولت سے چلانے کے لیے ضروری ہیں وہ یہاں مفقود ہیں جو کاروبار کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نوجوان کاروبار کرنے والوں کو مدد فراہم کریں۔ اُن کے لیےفنڈنگ اور وسائل تک رسائی فراہم کریں، ریگولیٹری عمل کو آسان بنائیں، بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری میں مدد دیں، رہنمائی اور تربیتی پروگرم اکرائے جائیں۔

آج کل کے حالات میں جاب مائنڈ سیٹ سے زیادہ انٹرپینور مائنڈ سیٹ کی ضرورت ہے، اسی سے معاشرے میں ایک بڑ ا انقلاب آئے گا اور معیشت بھی بہتر ہوگی۔ نوجوانوں میں کاروباری جذبے کا اضافہ ایک امید افزا رجحان ہے۔ صحیح معاونت اور وسائل کے ساتھ، یہ نوجوان جدت طرازی کر سکتے ہیں، ملازمتیوں کے مواقع پیدا کرکے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔