• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہتر صحت کے لیے کیلوریز کو اعتدال میں رکھیں

ڈیوک یونیورسٹی، نارتھ کیرولائنا کی انسانی صحت اور غذا کے درمیان تعلق پر کی جانے والی ایک تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ، اگر آپ خود کو دل کے امراض اور ذیابطیس وغیرہ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ’کریش ڈائٹ‘ کو اپنانے کے بجائے روزانہ کی غذا سے ایک خمیری روٹی یا ’چِیز پیزا‘ کی ایک سلائس کے مساوی کیلوریز کم کردیں، اس طرح آپ آسانی سے ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ شوگر، کمر کے اِرد گرد اضافی چربی اور کولیسٹرول کی غیرمعمولی سطح میں قابلِ ذکر حد تک کمی لاسکتے ہیں۔

ڈاکٹر وِلیم کراس، ڈیوک مالیکیولر فزیولاجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کلینیکل ٹرانسلیشن ہیں، جوکہ انسانی صحت اور غذا کے درمیان تعلق پر اس تحقیق کے سربراہ بھی تھے۔ تحقیق کے مطابق، 143افراد نے اپنی روزانہ کی ’کیلوری اِن ٹیک‘ میںکمی کرتے ہوئے اس تحقیق کے لیے خود کو پیش کیا۔

دو برس تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں شامل افراد کو اپنی کیلوریز کی یومیہ کھپت میں 12فی صد یعنی 300کیلوریز کٹوتی کا کہا گیا۔ کم کیلوریز لینے کے اس عمل میں ان افراد کے وزن میں اوسطً 16 پونڈ (زیادہ تر چربی) کمی آئی۔ ’’دو سال تک کیلوریز کے استعمال میں محدود پیمانے پر مسلسل کمی کرکے ایسے نوجوان، جن کا وزن زیادہ نہیں ہے، خود کو متعدد امراض کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ 

یہ تحقیق اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد، وزن بڑھانے کے بعد سخت قسم کا ڈائٹ کورس اختیار کرنے کے بجائے اگر بروقت (جس وقت ان کا وزن مناسب ہوتا ہے) اپنی کیلوریز کے استعمال میں محدود پیمانے پر کمی کرنے کی عادت اپنا لیں تو اس سے ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ طویل عمر تک صحت مند زندگی گزارنے کی بنیاد ڈال سکتا ہے‘‘۔

یہ تحقیق بین الاقوامی جرنل ’دی لانسیٹ ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرائنولاجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔ لانسیٹ سے گفتگو میں ڈاکٹر کراس کا کہنا تھا کہ، ہرچندکہ جانوروں میں کیلوریز میں کمی اوربہتر صحت کے درمیان تعلق پر گزشتہ 50برس میں کافی تحقیق کی گئی ہے لیکن انسانوں پر کی جانے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی اور مفصل تحقیق ہے۔ 

’’سوال یہ ہے کہ کیا کیلوری میں کمی کا انسان کی صحت کے دورانیہ (انسان کی پیدائش اور دائمی امراض پیدا ہونے کے وقت کے درمیان فرق) یا زندگی کے دورانیہ پر فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کیلوریز میں کٹوتی ہر جاندار چیز پر دونوں طرح سے اثرانداز ہوتی ہے، جبکہ ورزش صرف انسانی صحت کے دورانیہ پر اثرانداز ہوتی ہے، زندگی کے دورانیہ پر نہیں‘‘۔

ڈاکٹر کراس کی تحقیق میں کیلوریز کی عمومی تعداد میں کٹوتی پر توجہ دی گئی تھی اور کسی مخصوص مائیکرونیوٹرینٹ جیسے پروٹین، کاربوہائیڈریٹ یا چکنائی کو مدِنظر نہیں رکھا گیا تھا۔

تحقیق کے گروپ میں عمومی وزن یا عمومی سے کچھ زائد وزن کے حامل نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے افراد کو شامل کیا گیا تھا اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیلوریز کے استعمال کو محدود طور پر کم کرنے کا ان افراد کی صحت پر قابلِ ذکر حد تک اثر پڑا، مزید برآں جن لوگوں کی صحت عمومی طور پر اچھی تھی، ان کی صحت مزید بہتر ہوگئی۔ 

’’کیلوریز کے استعمال میں کمی کا اثر نہ صرف ان لوگوں پر دیکھا جاتا ہے جن میں موٹاپے اور ذیابطیس کے خطرات زیادہ پائے جاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی صحت بھی مزید بہتر ہوجاتی ہے جن میں جسمانی بیماریوں کے خطرات کم ہوتے ہیں‘‘، ڈاکٹر کراس کہتے ہیں۔

امریکا کے محکمہ زراعت کے مطابق، ایک اوسط بالغ خاتون کو روزانہ 16سو سے 24سو کیلوریز جبکہ مرد حضرات کو 2ہزار سے 3ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شخص کو حقیقتاً روزانہ کتنی کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا دارومدار آپ کی عمر، صنف، وزن اور جسمانی سرگرمیوں کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 1970سے 2010کے درمیان امریکی شہریوں کی جانب سے یومیہ کیلوریز کے استعمال میں 23فی صد اضافہ ہوا، اور اس اضافے کے بعد 2010میں ایک امریکی اوسطً 2,481کیلوریز استعمال کررہا تھا۔

ماہرین کے مطابق، کیلوریز میں محدود پیمانے پر کمی لاکر انسان اپنی جسمانی صحت کو بہتر اور بہت ساری بیماریوں کے خطرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر شخص کو اس کی عمر، صنف، وزن اور جسمانی سرگرمیوں کے مطابق کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے کم کیلوریز کا استعمال اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ 

ایسے میں ماہرین کہتے ہیں کہ، بہتر صحت کے لیے ہمیں اپنی کیلوریز پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ میں باقاعدگی سے صحت مند غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے، جیسے تازہ سبزیاں، پھل، گری دار میوے، بیج اور پھلیاں وغیرہ۔

صحت سے مزید