مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
ﷲ ربّ العزت نے دنیا میں سب سے پہلا رشتہ میاں، بیوی کاتخلیق کیا۔ یہی وہ خُوب صُورت رشتہ ہے، جو نسلِ انسانی کی بنیاد ہے۔ قرآنِ کریم میں میاں، بیوی کو ایک دوسرے کے لباس سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس سے عمدہ مثال بھلا کیا ہوگی۔ دو سال قبل میری پیاری اہلیہ طویل رفاقت کے بعد داغِ مفارقت دے گئی،تو اُس کی اچانک وفات پر کچھ دلی جذبات، تاثرات، قارئین کی نذر کررہا ہوں۔
20 مارچ 2022ءکی بات ہے، اُس روز میری اہلیہ کی طبیعت بہت بے چین سی تھی۔سارے ماحول پر عجیب افسردگی، اُداسی اور خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔ مَیں بار بار اُسے بہلانے کے لیے کوئی موضوع چھیڑدیتا،لیکن وہ ٹھیک سے توجّہ نہیں دے پا رہی تھی۔ مجھے تھوڑی پریشانی لاحق ہوئی اور سبب پوچھا، تو بڑی اُداسی سے کہا کہ ’’کچھ نہیں، بس ایسے ہی طبیعت ذرا بوجھل سی ہے۔‘‘
اتوار کی چُھٹی ہونے کی وجہ سے اس کی بڑی بہن، بہنوئی، چھوٹی بہن، بھابی اور بھانجا اس سے ملنے آگئے تھے۔ سب اس کی طبیعت اور خیرخیریت دریافت کررہے تھے، مگر وہ اپنے ہی خیالوں میں گُم، خاموش خاموش سی تھی۔ کبھی کسی جنّت مکانی بزرگ کی کوئی بات یاد کرتی، چند لفظ بولتی اور پھر چُپ ہو رہتی۔ میری بڑی بہن اُن دنوں کافی علیل تھیں۔
اُن کا ذکر آیا، تو بہنوں اور بہنوئی سے کہنے لگی ’’مَیں تو بالکل ٹھیک ہوں۔آپ لوگ جاکر آپا سے مل لیں، اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے اُس سے کہا کہ ’’آپا کو بھی دیکھنے چلے جائیں گے، پہلے تم چیک اَپ کے لیے میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو، تو ایک دَم کہا، ’’ ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں، بس آج ہی کا دن توہے ناں.....‘‘اُس نے کچھ اس انداز سے یہ جملہ ادا کیا کہ میرے اندر جیسے اک طوفان سا برپا ہوگیا، لیکن مہمانوں کے سامنے منہ سے کچھ بول نہیں سکا۔
اتنا بھی نہیں پوچھ سکا کہ آخر اس ’’آج کے دن‘‘ کا کیا مطلب ہوا؟بہرحال، گھر آئے مہمان کچھ دیر بعد کھانا وغیرہ کھا کر دوبارہ اس کے پاس آبیٹھے اور حال احوال پوچھنے لگے، مگر دوسری طرف وہی اداسی اور خاموشی طاری رہی، پھر ایک لمبے وقفے کے بعد اچانک اُس کے منہ سے نکلا، ’’آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں.....سامان سو برس کا ہے، پَل کی خبر نہیں!‘‘ اُس کا اس طرح سے یہ شعر پڑھنا مجھے بہت عجیب سا لگا، میرے جی میں آیا کہ اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دوں کہ یہ آج کیسی باتیں کر رہی ہے، پھر میرے ذہن میں برسوں پرانا وہ لمحہ گھوم گیا، جب شادی سے کچھ عرصہ پہلے، مَیں اُس کے یہاں گیا، تووہ ایک تکیے پر اِن ہی الفاظ سے کڑھت کررہی تھی۔ (اُس زمانے میں لڑکیاں تکیوں پر پھول بُوٹوں کے ساتھ روایتی طور پر اس قسم کے اشعار کاڑھا کرتی تھیں)۔
مجھے تشویش ہوئی کہ اِس وقت، اس شعر کا کیاموقع محل ہے۔ اُسی شام پانچ بج کر دس منٹ پرمیری رفیقۂ حیات، تقریباً چالیس سالہ رفاقت چھوڑ کر اپنے ابدی گھر رخصت ہو گئی۔ یوں آناً فاناً، سب مہمانوں کی موجودگی میں اُس کےاچانک انتقال پر ایک کہرام سا برپا ہوگیا، پورےگھر میں اس کی بہنوں، بھابھی اور میری بہو، بھانجی کی چیخیں، بیٹی اور بیٹوں کیآہ و زاری کی آوازیں تھیں۔گھر کے سبھی افراد اچانک فرطِ غم سے نڈھال ہوگئے تھے۔
کہتے ہیں، وقت بڑا مرہم ہے، انسان آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ ساتھ، بہت کچھ بھول جاتا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ کچھ لمحے، کچھ باتیں، یادیں بڑی کوششوں کے باوجود بھی بُھلائی نہیں جاتیں۔ میری مجسّم وفا، انتہائی نیک سیرت، اللہ لوک اہلیہ مجھے آج بھی پَل پَل یاد آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری اہلیہ کی بشری لغزشیں معاف فرما کر اُسے جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اوراس کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دے۔ (آمین)۔ (محمد یونس، لاہور)