لاہور(آصف محمود بٹ ) پاکستان انفارمیشن کمیشن نے وفاقی حکومت کے رائٹ ٹو ایکسیس آف انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو 1000بڑے قرض نادہندگان کی فہرست 10روز کے اندر افشاء کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔
کراچی کے رہائشی عظمت خان کی جانب سے مذکورہ قانون کے تحت دائر کردہ درخواست کے جاری فیصلے میں پاکستان انفارمیشن کمیشن نے کہا کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ 1000 افراد نے متعلقہ بینکوں سے قرضے حاصل کیے اور انہیں واپس کرنے میں ناکام رہے، جس سے ملک اور اس میں شامل بینکوں دونوں کو کافی مالی نقصان پہنچا۔ ایسے افراد سے متعلق معلومات اور انکشافات کو چھپا کر نہیں رکھا جا سکتا۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس کیس میں دی گئی استثنیٰ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کمیشن نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہدایت کی ہے کہ وہ مطلوبہ معلومات افشا کرکے 10 دن کے اندر کمیشن کو پیش کریں۔
کمیشن کے احکامات کی تعمیل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کے سیکشن 20(f) کے تحت ذمہ دار فریقین کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی۔
درخواست گذار عظمت خان نے وفاقی حکومت کے معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت 1000 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست طلب کی تھی۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب میں رائٹ ٹو ایکسیس آف انفارمیشن ایکٹ2017 کے سیکشن 7(d) کے تحت مذکورہ معلومات کو افشاء کرنے سے استثنیٰ کی درخواست کی، جو کہ بینکنگ کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے اپنے صارفین کے اکاؤنٹس اور ان کے ریکارڈ سے متعلق ہے۔
کمیشن نے معلومات کی درخواست اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے تحریری جواب اور متعلقہ قانون کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنے حکم میں واضح کیا گیا کہ معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کا سیکشن 7(d)، جو کچھ ریکارڈز کو افشاء سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے، قرض نادہندگان کی درخواست کردہ فہرست پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔