• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبے زرعی ٹیکس بڑھانے پر آمادہ، چین کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کیلئے آئی ایم ایف شرائط مسترد، اسٹاف لیول معاہدہ رواں ماہ ہوجائے گا، وزیر خزانہ

اسلام آباد (مہتاب حیدر / تنویر ہاشمی ) چینی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے آئی ایم ایف کی کسی بھی شرط کو مسترد کرتے ہوئے وزیر خزانہ اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کا حجم 6ارب ڈالر سے زائد ہوگا تاہم اس کا حتمی فیصلہ آئندہ ہفتے ہو جائے گا، آئی ایم ایف کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں اور امکان ہےکہ رواں ماہ اسٹاف سطح کا معاہد ہ ہوجائے گا،صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس کی شرح بڑھانےپر آمادگی ظاہر کی ہے ، آئی ایم ایف اصل آمدن پر ٹیکس چاہتا ہے جو درست ہے، تمام شعبوں کے دبائو کا سامنا ہے، ہر شخص چاہتا ہے ٹیکس نہ لگایا جائے، چینی آئی پی پیز کے قرضوں کی ادائیگی میں 2036ء سے 2041ءتک توسیع کے خواہشمند ہیں، توقع ہے بجلی بلوں میں کمی ہوگی۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے اتفاق کیا ہے کہ نئے مجوزہ اسٹرکچرل بینچ مارک اکتوبر2024 کے آخرتک چاروں صوبے زرعی آمدن ٹیکس قوانین میں ترمیم کریں گے تاکہ اس کی شرح پرسنل انکم ٹیکس سے مطابقت پیدا کی جاسکے اور وفاقی سطح پر لگائے جانے والے کارپوریٹ ٹیکس کے برابر لایاجاسکے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس کی شرح بڑھانےپر آمادگی ظاہر کی ہے ، نئے قرض پروگرام کےپہلے جائزہ مشن کے بعد موسمیاتی تبدیلی کے معاملے پر بھی بات ہوگی،واضح رہےکہ چین کے پاکستان کو دوطرفہ قرضے اور آئی پی پیز کے قرضے 35ارب ڈالر سے 37ارب ڈالر کے درمیان ہیں ان میں آئی پی پیز کے قرضے 15ارب40کروڑ ڈالر ہیں ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا رواں ماہ چین کا دورہ متوقع تھا لیکن 15سے 18جولائی کے دوران چینی لیڈرشپ کانفرنس کے باعث یہ دورہ تاخیر کا شکار ہو گیا ہے،پاکستان حکام چینی آئی پی پیز کے قرضوںکی ادائیگی میں 2036سے 2041تک توسیع کےلیے خواہشمند ہیں ، اگر چین اس پر متفق ہوجاتا ہے تو توقع ہےکہ بجلی کے بلوں میں کمی ہوجائے گی تاہم چینی کمپنیوں کے بقایا جات کی ری سٹرکچرنگ پرقائل کرنا کافی مشکل ہے، قبل ازیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سیدنوید قمر کی زیر صدارت ہوا، سید نوید قمر نے سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کے چیدہ چیدہ خدوخال پر بریفنگ کےلیے اجلاس کو ان کیمرہ کر دیا،اور حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کی تفصیلات ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے سپورٹ کی اورصحافیوں کی آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق آگاہی کےلیے رسائی سے روک دیا ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا پنشن پر ہر سال ایک ہزار ارب روپے دے رہےہیں ،نئے ملازمین کو رضاکارانہ پنشن سکیم دی جائے گی، فوج کو اپنے پورے سروس سٹرکچر میں تبدیلی کرنا پڑے گی ، اس لیے انکو ایک سال مزید دیا ہے، یکم جولائی 2024سے بھرتی ہونیوالے سرکاری ملازمین کی پنشن اب کنٹریبوٹری ہوگی ، وفاقی حکومت کے سائز کو بھی کم کیا جائے گا ، حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے 5 وزاتوں کو ختم کیا جائے گا ، اگست کے اوائل تک سفارشات تیار کر لی جائیں گی ، پی ڈبلیو ڈی کے نقصانات باعث اس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیامسلح افواج کے لیے یکم جولائی 2025 سے کنٹریبیوٹری پینشن کا نظام شروع ہو جائے گا، آئی ایم ایفاصل آمدن پر ٹیکس چاہتا ہے جو درست ہے ،انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے دیگر اداروں سے فنڈز ملنا شروع ہوگئے ہیں، وزیر خزانہ نے مزید بتایا ، تمام شعبوں کے دبائو کا سامنا ہے، ہر شخص چاہتا ہے ٹیکس نہ لگایا جائے حکومت رئیل سٹیٹ اور ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لارہی ہے، گزشتہ مالی سال تمام میکرواکنامک اعشاریوں مثبت رہے ، ، مہنگائی میں کمی آئی، 2023 میں جب آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوا تو مشکلات بڑھیں،سب سے بڑی مشکل سرمایہ کاروں کی بیرون ملک منافع کی ترسیل تھی، اب درآمدات پر کوئی پابندی نہیں، انہوں نے کہا کہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی کو 13 فیصد پر لے کر جائیں گے، سب کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، نان فائلر کو سزائیں دینے کا عمل شروع کر دیا ہے،وزیر خزانہ نے کہاکہ حکومت کے اخراجات میں قرض اور سود کی ادائیگی بڑا خرچہ ہے ،ترقیاتی بجٹ کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا جائے گا۔چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ نے کہاہرچیز جو فروخت ہوتی ہے اس پر سیلز ٹیکس عائد ہے اس فارمولے کے تحت بجلی پر بھی ٹیکس عائد ہے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے بجلی کے بلوں میں شامل ٹیکسوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔ ادھر پاکستان اور آئی ایم ایف نے اتفاق کیا ہے کہ نئے مجوزہ اسٹرکچرل بینچ مارک اکتوبر2024 کے آخرتک چاروں صوبے زرعی آمدن ٹیکس قوانین میں ترمیم کریں گے تاکہ اس کی شرح پرسنل انکم ٹیکس سے مطابقت پیدا کی جاسکے اور وفاقی سطح پر لگائے جانے والے کارپوریٹ ٹیکس کے برابر لایاجاسکے۔ چاروں صوبوں نے بھی اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ وہ ترمیم شدہ زرعی انکم ٹیکس یکم جنوری 2025 سےلگائیں گے۔ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اگر کوئی صوبہ زرعی انکم ٹیکس کی وصول میں کوئی چیلنج محسوس کرے تو وہ اپنی صلاحیت پیدا کرنے تک اپنی جانب سے ایف بی آر کو اجازت دے کہ وہ یہ ٹیکس جمع کرے۔سرکاری طور پر صوبائی حکومت نے وزارت خزانہ کے ساتھ وفاقی سطح پر بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے میمورینڈم (MEFP) کا نظرثانی شدہ متن منظوری کے لیے بھیجا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے تیار کردہ MEFP میں کہا گیا ہے کہ اس موضوع پر ہدایات دی گئی ہیں جس میں MEFP کے نظرثانی شدہ متن کے اقتباس کو دوبارہ پیش کیا گیا ہے، اور اس کی منظوری کی درخواست کی گئی ہے: صوبائی ٹیکس اصلاحات کے تحت، آئی ایم ایف کا منصوبہ ہے کہ چاروں صوبوں نے اپنے الائیڈ ٹیکس (AIT) کے نظاموں کو وفاقی ذاتی آمدنی (چھوٹے کسانوں) اور کارپوریٹ آمدنی (تجارتی زراعت) ٹیکس نظاموں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری قانون سازی کی تبدیلیوں کے ذریعے ترمیم کرنے پر اتفاق کیا ہے، [اور مویشیوں کی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر کسی بھی چھوٹ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا] (اکتوبر 2024 کے آخر تک SB) سے نافذ العمل ہو جائے گا۔

اہم خبریں سے مزید