نیویارک (تجزیہ / عظیم ایم میاں) سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد ٹرمپ کو ’ہمدردی کا ووٹ‘ ملنے میں اضافے ہونے کا امکان ہے۔
واقعے نے ڈیموکریٹک پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے جبکہ ریپبلکن کے بعض ٹرمپ مخالف حلقے بھی خاموش ہوگئے، قاتلانہ حملے کے بعد ٹرمپ پر الزامات کے منفی اثرات فی الوقت پس پردہ چلے گئے جس سے امریکی انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔
سیکورٹی، سیکرٹ سروس اور انتظامات کے باوجود ٹرمپ صرف اپنی حاضر دماغی کی وجہ سے بچنے میں کامیاب ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق اکیسویں صدی کی جدید سیکورٹی ایجادات اور عالمی شہرت یافتہ امریکی سیکرٹ سروس کی موجودگی اور انتظامات کے باوجود صرف اپنی حاضر دماغی اور جلسہ گاہ کے ڈائس کے پیچھے بیٹھ کر فائرنگ سے بچنے کے بعد زخمی کان اور خون آلود چہرہ کے ساتھ سیکرٹ سروس کے حصار میں اسپتال جانے سے قبل حملہ میں زخمی ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ’’فائٹ، فائٹ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے نڈر ٹرمپ نے اپنے حامیوں، امریکی عوام اور دنیا کے سامنے جس جرات اور عزم کا اظہار کیا ہے اس کے سیاسی اور عوامی اثرات امریکا کے صدارتی انتخابات اور انتخابی مہم پر بھی ہوںگے۔
اس واقعہ نے نہ صرف ری پبلکن پارٹی کے بعض ٹرمپ مخالف حلقوں کو خاموش کرکے پارٹی کو متحد کرکے ٹرمپ کی نامزدگی اور پارٹی کی متفقہ سپورٹ کی راہ کو ہموار کردیا ہے بلکہ صدارتی انتخابات میں بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات کو مزید روشن کردیا ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔
طبی امداد اور معائنہ کے بعد ڈونالڈٹرمپ کی نیو جرسی میں اپنی رہائش گاہ پر واپسی اور ری پبلکن پارٹی کے کنونشن میں شرکت، خطاب اور نامزدگی حاصل کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے اعلان نے نہ صرف اپنے حامیوں اور پارٹی کے حوصلے بلند کردیئے ہیں بلکہ اپنے مخالف امیدوار ڈیموکریٹ صدر بائیڈن کی نیٹو ممالک کی کانفرنس میں پرفارمنس اور ضعیف العمری کی حالت کو مزید نمایاں کردیا ہے۔
اس قاتلانہ حملہ کے واقعہ کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف نیویارک کی عدالت کے فیصلے اور دیگر الزامات کے منفی اثرات فی الوقت پس پردہ چلے گئے اور ٹرمپ کو ’’ہمدردی کے ووٹ‘‘ کا اضافہ بھی ہونے کا امکان ہے۔ مختصر یہ کہ قاتلانہ حملہ کا واقعہ امریکا کے صدارتی انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے درمیان انتخابی بحث و مباحثہ کی بجائے سازشی نظریات و الزامات کی جنگ شروع ہوگئی ہے لیکن قاتلانہ حملہ سے قبل متعدد عوامی سروے میں ٹرمپ بائیڈن سے آگے نظر آنے والے ٹرمپ اب خود کو مزید مضبوط محسوس کرنے لگے ہیں۔
صدر بائیڈن جو اپنی ضعیف العمری اور نیٹو کانفرنس میں اپنی پرفارمنس اور یادداشت کے حوالے سے خود اپنی پارٹی کے بعض حلقوں کی جانب سے شدید دبائو اور متبادل امیدوار کے مطالبہ کا شکار ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ پر حملہ کی مذمت کے بیان کے باوجود اپنی پارٹی کے بعض حلقوں کے مطالبہ اور دبائو کا شکار ہے جبکہ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی باہمی الزامات کی سیاست میں بھی الجھ گئی ہیں۔
قاتلانہ حملے کا ملزم 20؍ سالہ تھامس میتھیو کروکس صرف دو سال قبل ہائی اسکول کی تعلیم امتیازی نمبروں سے پاس کرکے سائنس اور حساب کے مضامین میں اعلی پرفارمنس کے باعث 500؍ ڈالرز کا انعام بھی حاصل کرچکا تھا اور وہ ری پبلکن پارٹی کا حامی رجسٹرڈ ووٹر بھی تھا۔
ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کا ملزم 20؍ سالہ تھامس کروکس بھی امریکی سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکا لہٰذا اس حملہ کے محرکات اور تھامس کے نظریات کے بارے میں حقائق جاننے کی راہ میں رکاوٹ حائل ہوگئی۔ ماضی میں صدر کینیڈی، صدر ریگن اور دیگر صدور پر قاتلانہ حملوں کا ریکارڈ واضح ہے کہ ان حملوں کی تحقیقات متعدد سازشی نظریات اور مفروضات کا شکار رہی ہیں اور متعدد سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔