• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ ’’جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، گویا اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘ اس لحاظ سے مسیحائی کا منصب، یعنی ڈاکٹر کا پیشہ ملازمت کے ساتھ ثواب اور دلی اطمینان کا باعث بھی ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اسپتالوں کی صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔ زیرِنظر واقعہ بظاہر معمولی سا ہے، لیکن بحیثیت انسان میرے دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گیا۔

تقریباً دس بارہ سال قبل مَیں جِلد کی بیماری کا شکار ہوا، تو ایک سرکاری اسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب ہمارے جاننے والے تھے، انہوں نے چیک اَپ کے لیے دن اور وقت بتادیا۔ خیر، مقررہ دن جب مَیں وہاں پہنچا، تو دروازے پر کھڑے اٹینڈنٹ نے بے زاری سے پوچھا، ’’کس ڈاکٹر سے ملنا ہے؟‘‘ مَیں نے ڈاکٹر صاحب کا نام بتایا، تو اس نے سپاٹ لہجے میں کہا، ’’وہ آج نہیں آئے۔‘‘ لیکن جب مَیں نے بتایا کہ میری اُن سے بات ہوئی ہے اور ڈاکٹر صاحب ہی نے آج مجھے آنے کا کہا ہے۔‘‘ تو اُس نے گھور کردیکھا اور ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کردیا۔ اس کی ہدایت پر مَیں لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا۔

میرے سامنے بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک بوڑھا مریض بیٹھا تھا۔ وہ بھی شاید جِلد کی تکلیف میں مبتلا تھا اور تکلیف زیادہ ہونے کی وجہ سے وقفے وقفے سے کراہ بھی رہا تھا۔ اس نے جب ڈاکٹر سے چیک اَپ کروانے کی بات کی، تو اٹینڈنٹ نے بے زاری سے کہا۔ ’’بابا جی! کل آجانا۔‘‘ حالاں کہ ڈاکٹر صاحب اندر مریضوں کو چیک کررہے تھے۔ مریض نے لاچاری کے عالم میں کئی بار گِڑگڑا کر اس سے درخواست کی کہ ’’مَیں بہت زیادہ تکلیف میں ہوں، براہِ کرم مجھے اندر جانے دیں۔‘‘ لیکن اٹینڈنٹ نے اسے اندر نہ جانے دیا۔ 

اسی اثناء میں ایک شخص نے اٹینڈنٹ کو دو سو روپیا تھمایا، تو اُسے فوراً ہی اندر بھیج دیا۔ مَیں اپنی جگہ سے اٹھ کر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ باقی شعبہ جات میں بھی یہی حال تھا۔ کہیں نرسیں، مریضوں کو ڈانٹ رہی تھیں، کہیں وارڈ بوائے اُن سے ہتک آمیز سلوک کررہے تھے۔ ڈاکٹروں کی حالت بھی ناقابلِ بیان تھی۔ یہ دیکھ کر تو بے حد افسوس ہوا کہ نرسیں، ڈاکٹرز کی ایماء پر مریضوں کو دھڑا دھڑنسخے لکھ کر دے رہی تھیں۔

اسپتال کے مختلف حصّوں میں مریض بے یارومدگار پڑے، بے بسی کی تصویر بنے نظر آرہے تھے۔ کچھ شعبہ جات میں محض چند مریضوں کے چیک اپ کے بعد باقی کو واپس بھجوایا جارہا تھا۔ خیر، کچھ دیر بعد مذکورہ ڈاکٹر سے میری ملاقات ہوگئی، لیکن اُن سے چیک اَپ کے بعد مَیں بہت بوجھل دل کے ساتھ واپس گھر آیا اور سوچنے لگا کہ انسان کس قدر سنگ دل ہوگیا ہے۔ سرکاری ڈاکٹرز پوری تن خواہ لینے کے باوجود ایمان داری سے اپنا فرض نبھاتے ہیں، نہ ہی اُن کا اسٹاف مریضوں سے مہذّبانہ انداز سے پیش آتا ہے۔ 

ان کا رویہ انتہائی ہی ہتک آمیز اور جارحانہ ہوتا ہے۔ وہ مریض، جو جِلد کی کسی بیماری کے سبب شدید کرب کا شکار تھا اور انتہائی بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں مایوس لوٹ گیا تھا، کسی طور میرے ذہن سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔ کیا اُس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ غریب تھا، اٹینڈنٹ کی مٹھی گرم نہیں کرسکتا تھا۔ کہنے کو تو ہم ایک مسلمان معاشرے میں رہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمان تو دور کی بات، ہم تو انسانیت کے معیار سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کا دکھ درد سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (محمد جاوید اقبال، وحدت کالونی، لاہور)