• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ہونے والی معاشی اصطلاحات اور انقلابات نے مغربی ماہرین معاشیات، سیاسیات، سائنسدانوں، مفکرین نے دنیا کو تین طبقات میں تقسیم کردیا۔ ان میں پہلی دنیا، سپرپاور، دوسری دنیا،جدید ترقی یافتہ ممالکت تیسری دنیا، ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک ہیں۔

یہی وہ تقسیم ہے جس نے دنیا میں بسنے والی نوجوانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔پہلی دنیا کے نوجوان تکبر اور غرور کے نشے میں مست ہوکر اور اپنی ذات کو سپرپاور کہنے لگے، دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے جب کہ، تیسری دنیا کے بیش تر نوجوان غربت، تنگدستی اور مفلسی کی وجہ سے احساسِ محرومی کا شکار ہوگئے۔

اسی تناظر میں اگر پاکستان ، جس کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے تو یہاں سب جانتے ہیں کہ ہمارا کیا حال ہے۔

تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں تعلیمی نظام میں کم از کم توازن استاد، شاگرد میں احترام، اخلاق اور خلوص کا جذبہ توپایا جاتا ہےلیکن ہمارے ملک میں تعلیمی نظام بھی درجہ بندیوں کا شکار ہے معاشی طور پر مستحکم نوجوان جو اپنے محل نما ایئرکنڈیشن گھروں سے نکل کر مہنگی ترین گاڑیوں میں انگریزی میڈیم اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں ،ان کا زندگی کی تلخیوں اور پریشانیوں سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہوتا، اسی وجہ سے ان کے مزاج، عادات و اطوار بھی شاہانہ ہوتے ہیں، ایسے نوجوانوں کو نوکری حاصل کرنے کے لیے کوئی بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی ،نہ ہی جھلسی دھوپ میں سڑکوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے، کیونکہ اثررسوخ اور سفارش ان کی تمام خامیوں اور خرابیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے،ان میں انساینت محبت و خلوص جیسا جذبہ کا احساس شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کوسپرپاور سمجھتے ہیں۔

دوسرے طبقے میں وہ نوجوان ہیں جو حالات کی تبدیلی کے باعث خود کو اس ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے نوجوانوں کو متوسط گھرانوں کے چشم و چراغ کا نام دیا جاتا ہے جو اپنی سفید پوشی کے بھرم کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے ہیں اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے گھر کے سربراہ کی محدود قلیل آمدنی کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کو اہمیت دیتے ہیں۔ 

والدین بچوں کو معیاری تعلیم و تربیت دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اکثر نوجوان زمانہ طالب علمی سے ہی مختلف قسم کے روزگار میں مصروف ہوجاتے ہیں تاکہ اپنی تعلیمی اخراجات کو پورا کر سکیں اور والدین کا بھی سہارا بن جائیں۔ وہ محنت اور لگن سے اہم مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے نوجوان اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔

تیسرے طبقے میں وہ نوجوان شامل ہیں جو غربت، مفلسی اور نامساعد حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر تعلیم حاصل نہیں کرپاتے یا تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اور کم عمری سے ہی ورکشاپس، ہوٹلوں، دوکانوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں، ان نوجوانوں کو اپنے بچپن اور لڑکپن کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کب بڑے ہوگئے

ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی تعداد 70 فیصد کے قریب ہے جو اپنے گھر کو چلانے کے لیے صبح و شام مزدوری کرتے ہیں خستہ حالات اور کسمپرسی کی زندگی سے نکلنے کے لیے ایسے نوجوانوں میں سے بعض غیر اخلاقی اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوجاتے اور اپنا مستقبل ہی نہیں زندگی بھی دائو پر لگا دیتے ہیں جس کا نتیجہ سوائے تاریکی، جیل کی سلاخوں کے پیچھے یا موت ہوتی ہے جو اک المیہ ہے، جو اس تیسرے طبقے کا خوفناک انجام ہو سکتا ہے ۔ حاکم وقت کو یہ صورتحال نظر نہیں آتی کہ اس طبقے کے لیے اپنے منشور یا ترقیاتی منصوبوں میں ان کے لیے کچھ اچھا سوچیں۔

ایک طبقہ ایسے نوجوانوں کا بھی ہے جو یتیم خانوں، مختلف سماجی اور فلاحی اداروں میں پروان چڑھتے ہیں۔ ان کی شناخت صرف یتیم خانے اور سماجی ادارے ہی ہوتے ہیں یہ بھی باقاعدہ عام شہری کی طرح اسکول، کالج، مدرسوں کا رخ کرتے ہیں اور مختلف ہنرسیکھ کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ احساس کمتری اور شناخت کے احساس کے باوجود ہمت اور حوصلے سے زندگی میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

1980ء کی دہائی کے بعد سے یہ طبقاتی جنگ کسی نہ کسی شکل میں ہمارے نوجوانوں کو متاثر کررہی ہے۔ اگر موجودہ حالات میں اس کا جلدازجلد سدباب نہیں کیا گیا ۔ حقیقت اور حقائق کو نظر انداز کیا گیا تو وطن عزیز کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کیا جاسکتا جس کے منفی نقصانات ہوسکتے ہیں جو پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرات کا باعث بن سکتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ طبقاتی نظام کے اژدھے کا قلع قمع کیا جائے جب تک ہم مختلف طبقات، قومیت، لسانیت، فرقہ پرستی کا شکار اور امیروغریب کے مسائل میں جکڑے رہیں اور تعلیمی اداروں اور دیگر شعبہ جات میں درجہ بندیاں قائم رکھیں گے تو ملک کا مستقبل روشن نہیں ہوسکے گا۔ ان تمام طبقاتی درجہ بندیوں کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کو آگے آنا ہو گا۔ اگر وہ متحد ہوجائیں تو ہر منزل آسان ہوجائے گی۔ 

مال و دولت کی بیناد پر کسی کو حقیر نہ سمجھیں، اپنی ذات میں بردباری، انکساری اور اخلاقیات پیدا کریں اک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا سمجھیں ، ایک دوسرے کے مسائل سے آگہی حاصل کریں آپ کے دوست احباب کوئی احساس کمتری میں مبتلا ہیں تو ان کا حوصلہ بڑھائیں اور ان کی مدد کریں اس سے آپس میں بھائی چارہ کی فضاء پیدا ہوگی۔ 

تعلیم یافتہ نوجوانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پہلے تو وہ طبقاتی حد بندیوں کو توڑنے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ غیرتعلیم یافتہ نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں یا کوئی ہنر سکھانے کی ضرورت پر زور دیں تب ہی دنیا کے سامنے ثابت کر سکتے ہیں کہ اپنی محنت، لگن، جدوجہد کے ساتھ تیسری دنیا سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک میں اپنے وطن کی پہچان بناسکیں گے اور ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ جلد ہی سپرپاور کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں (انشااللہ)