• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

IMF معاہدہ، تین ممالک کی تصدیق ضروری، سعودیہ، چین اور امارات سے 12 ارب ڈالر قرض واپسی میں 3 سے 5 سال کی توسیع چاہیے ہوگی، وزیر خزانہ

اسلام آباد (مہتاب حیدر/تنویرہاشمی ))وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہناہے کہ آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈسے نئے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری کے لئےتین ممالک کی تصدیق ضروری ‘ پاکستان کو چین ‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 12ارب ڈالر کی قرض واپسی میں 3سے 5سال کی توسیع چاہئے ہوگی ‘اس میں سعودی عرب کے 5‘ چین 4اورامارات کے تین ارب ڈالر شامل ہیں ‘عالمی مالیاتی ادارہ7ارب ڈالر کے قرض پروگرام کیلئے 37ماہ کی ایکسٹرنل فنانسنگ کی یقین دہانی چاہتاہے ‘چین سے توانائی قرض کی واپسی میں توسیع پر مثبت گفتگو ہوئی ہےجبکہ ایم ایف بورڈ کی منظوری میں چین پاکستان کی حمایت کرے گا ‘زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے قانون سازی کی جائے گی ‘آئی پی پیزسے معاہدے یک لخت ختم نہیں کئے جاسکتے ‘آئی ایم ایف سے نجات کیلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ اور برآمدی صنعتوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی طرف جانا ہوگا‘رٹیلرز‘ رئیل اسٹیٹ ‘ بلڈرز سمیت دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے ہی ٹیکس دہندگان کو ریلیف مل سکتا ہے‘توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے مستقل لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے‘ ٹیکس نادہندگان ملک اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ۔ اتوار کو وفاقی وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ محمد اورنگزیب نے کہا ہےچین کے ساتھ آئی پی پیز معاہدوں کے حوالے سےبہت مثبت بات چیت ہوئی ہے اس کے لیے ورکنگ گروپ تشکیل دیئے جائیں گے اور ہر پروجیکٹ پر الگ سے کام کیا جائے گا ، مقامی ایڈوائزر تعینات ہوگا‘آئی پی پیز معاہدے یکلخت ختم نہیں کیے جاسکتے اس کا مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری پر منفی اثرپڑتا ہے،یہ بہت نازک معاملہ ہے، پاور پلانٹس کو درآمدی کوئلے سے مقامی کوئلے پر منتقلی کےلیے چین کےساتھ مشترکہ طور پر مل کر کام کریں گے‘آئی ایم ایف کےساتھ سات ارب ڈالر کا معاہد ہ37ماہ کا ہے اور بیرونی فنانسنگ کے فرق کو آئندہ تین برسوں میں پور ا کرنا ہوگا جو پورا کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ اس میں 7ارب ڈالر آئی ایم ایف کےہیں اور باقی صرف ایک سال میں پورا نہیں کرنابلکہ پہلے سال ،د وسرے سال اور تیسرے سال سالانہ بنیادوںپر پورا کرنا ہوگا‘چین ، سعودی عرب اور امارات سے باقی فنانسنگ گیپ پورا ہو جائے گا اسی طرح چین اور دیگر شراکت داروں سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے بجائے ری پروفائلنگ کی بات ہوئی ہے اور قرضوں کی واپسی کی مدت میں اضافے کی بات چیت کی ہے تاکہ ہر سال قرضوں کو ری شیڈول نہ کرانا پڑے ، وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے مالی اور بیرونی قرضوں کے حوالےسے اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے‘معاشی استحکام کےلیے مشکل فیصلے کیے ہیں اور مزید مشکل فیصلے کیے جائیں گے اس کےلیے شارٹ ٹرم تکلیف ہوگی لیکن پھر آسانی ہوجائے گی، یہ سال ہمارے لیے ٹیسٹ کیس ہے ‘ توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے مستقل لائحہ عمل تشکیل دینےکی ضرورت ہے۔ ایف بی آر میں گزشتہ دو ماہ میں 49 لاکھ نان فائلرز کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے پاس اثاثے اور گاڑیاں ہیں ، بیرون ملک سفر کرتے ہیں لیکن فائلر نہیں ہیں، انہیں نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں، ڈیجیٹائزیشن کی وجہ سے کرپشن میں کمی ہوگی‘ اس عمل سے سیلز ٹیکس میں 600 ارب روپے جعلی ٹیکس کی نشاندہی ہوئی جس میں سے صرف ایک ارب روپے کی ریکوری ہوئی ،کسٹم ٹیکس 50 ارب سے 200 ارب روپے کی انڈر انواسنگ سامنے آئی۔یکم جولائی سے انڈسٹری کو 68 ارب کے ٹیکس ریفنڈز دیے جا چکے ہیں، زراعت کو ٹیکس رجیم میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، وزرائے اعلیٰ زرعی ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی کریں گے،اگر ہم مائیکرو استحکام نہیں لاتے تو مسائل ہوں گے‘آئی پی پیز کا اسٹرکچرل حل نکالنا ہوگا‘دورہ چین کے دوران پانڈا بانڈز جاری کرنےپربات چیت ہوئی‘ہمیں چین اورامریکا دونوں بلاکس کے ساتھ آگے چلنا ہے۔ ٹیکس نادہندگان ملک اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں‘ہم نے اگر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہے اور اسے جی ڈی پی کے لحاظ سے 13 فیصد تک لے جانا ہے تو ہمیں سہولیات کو بھی دیکھنا ہوگا۔ میں تنخواہ دار طبقہ سے تعلق کی وجہ سے ان سے ہمدردی رکھتا ہوں‘جو شعبے سے باہر ہیں اگر انہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا تو صورتحال اسی طرح چلتی رہے گی۔یہ باتیں کرنے کا نہیں بلکہ کام کرنے کا وقت ہے‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق تیل کی عالمی مارکیٹ ،روپے کی قدر میں کمی بیشی سے ہے تاہم اس سے غیر ضروری فائدہ اٹھانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے،ماضی میں آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں،اگر یکطرفہ طور پر کوئی معاہدہ ختم کرتے ہیں تو اس کے اچھے اثرات نہیں ہوتے، حکومتی خزانے کو پانچ وزارتوں سے 890ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے ، رائٹ سائزنگ سے اگر 20 سے 25 فیصد کمی نہ آئی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

اہم خبریں سے مزید