• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہاپسند بھارتی ہندو گروہ ’’رکھشا دل‘‘ کا نئی دہلی میں مسلمانوں کی جھگیوں پر حملہ

اسلام آباد(صالح ظافر)انتہائی دائیں بازو کےدہشگرد گروپ ہندورکھشا دل پر مشتمل ایک ہجوم نے اپنے رہنما بھوپندرتومار عرف پنکی چوہدری کی قیادت میں نئی دہلی کے گلدھر ریلوے اسٹیشن کے قریب غازی آباد کے ’ کاوی نگر‘علاقے میں کچی بستی میں رہنے والے مسلمانوں کی جھگیوں پر حملہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں غیرقانونی طور پر بنگلہ دیشی اور روہنجیا رہتے ہیں جو کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کے جواب میں انتقام لینے کے مطالبات سامنے آئے ہیں۔ ان میں خاص طور پر بی جے پی ایم ایل اے نیتیش رانے اور منڈی سے بی جے پی ایم پی کنگنا رناوت نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں حملوں پراکسایا۔ حملے کی دو ویڈیوز، جو پہلے گروپ کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی گئیں ان میں دہشت گردوں کو خیمے توڑتے، رہائشیوں کا سامان جلانے اور مسلمانوں پر لاٹھیوں سے حملہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ مسلسل مذہبی گالیاں دی جارہی ہیں۔ یہ اس ہفتے اس گروپ کا دوسرا حملہ ہے، جو حسینہ کی شہر میں آمد کے بعد ہوا ہے۔ دہشت گردوں نے نہ صرف جھگیوں کو جلا دیا بلکہ مسلمانوں کی شناخت کی تصدیق کے بعد ان کے کپڑے اور سامان بھی چن چن کر جلا دیا ۔بی جے پی ایم ایل اے نیتیش رانے نے X پر لکھا، "اگر بنگلہ دیش میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا اور قتل کیا جا رہا ہے۔ تو ہم یہاں ایک بھی بنگلہ دیشی کو سانس لینے کیوں دیں؟ ہم بھی نشانہ بنائیں گے اور قتل کریں گے۔بھارت کا اسرائیل سے موازنہ کرتے ہوئے کنگنا رناوت نے کہا کہ بھارت انتہا پسندوں سے بھرا ہوا ہے۔ "…اپنی تلواریں اٹھاؤ اور انہیں تیز رکھو، ہر روز کچھ نہ کچھ لڑائی کی مشق کرو۔ اگر زیادہ نہیں تو ہر روز خود کی حفاظت کے لیے 10 منٹ دو۔ایک دن پہلے، ایچ آر ڈی کے ایک اور ساتھی دکش چودھری نے دہلی کے شاستری نگر میں ایک جھگی پر حملہ کیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہاں کے رہائشی غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں۔ دکش چودھری کے نفرت انگیز تقاریر اور حملوں کی تاریخ ہے۔ وہ دو افراد میں سے ایک ہے جس نے حال ہی میں ختم ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں شمال مشرقی دہلی سے کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار پر انتخابی مہم کے دوران حملہ کیا تھا۔انتخابات کے بعد، اسے ایودھیا کے رہائشیوں کو غدار کہنے اور بی جے پی کی شکست کے بعد ان کے خلاف بدتمیزی کرنے پر بک کیا گیا تھا۔ پنکی نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں حملوں کی حمایت کی گئی ہے اور دہلی پولیس کو حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے، انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ انہیں صرف آسانی سے قابل ضمانت دفعات کے تحت بُک کیا جائے۔اس نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے جواب میں کیے گئے ہیں۔7 اگست کو جاری ہونے والی ایک اور ویڈیو میں اس نے کہا، "جس طرح بنگلہ دیش میں ہندوؤں کو قتل کیا جا رہا ہے، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، مندروں کو تباہ کیا جا رہا ہے… پوری دنیا اس پر خاموش ہے۔ کوئی کچھ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر یہ مظالم بند نہ ہوئے تو پھر بھارت میں رہنے والے بنگلہ دیشی ہمارے نشانے پر ہیں۔ میں ان تمام جگہوں کو جانتا ہوں۔ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ میں آخری دم تک لڑوں گا۔جب سے شیخ حسینہ نے ڈھاکہ سے فرار اختیار کیا ہے 5 اگست سے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف متعدد ہجوم کے حملے ہو چکے ہیں، بھارت کے دائیں بازو کے سوشل میڈیا اسپیس کو مسلمانوں کی مخالفت میں جھوٹی معلومات اور نفرت انگیز تقریر سے بھر دیا گیا ہے۔ چودھری سمیت دیگر افراد نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی مسلمانوں پر حملے کیے ہیں۔ غازی آباد پولیس نے مذکورہ جھگی میں بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاؤں کے بارے میں پنکی کے جھوٹے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ جن لوگوں پر حملہ کیا گیا وہ غیر ملکی نہیں بلکہ بھارتی شہری ہیں۔ رہائشی اتر پردیش کے شاہجہاں پور سے ہیں۔ مقامی پولیس اسٹیشن میں متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اہم خبریں سے مزید