کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ “ میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ، عمر چیمہ نے کہا کہ عمران خان فیض حمید سے اظہار لاتعلقی کررہے ہیں،عمران کے بیانئے میں جنرل فیض کا ان پٹ ہوتا تھا .
سینئر صحافی و تجزیہ کار منیب فاروق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب جنرل عاصم منیر کی تقرری ہورہی تھی اس وقت ایک بہت بڑی لیول کی سازش یا سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی.
9 مئی تو دوسری کوشش تھی پہلی کوشش تو جنرل عاصم منیر کے خلاف کی جاچکی تھی جب ان کی اپائمنٹ ہورہی تھی۔ پروگرام میں گفتگو کرتےہوئے عمر چیمہ نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اس بارے میں کچھ اہم پیش رفت ہوسکتی ہے کچھ چیزیں ہورہی ہیں ، آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کوئی پریس کانفرنس ہوجائے، مجھے مضحکہ خیز بات لگی کہ عمران خان نے کہا کہ میرا فیض حمیدسے پروفیشنل تعلق تھا سیاسی تعلق نہیں تھا۔
جنرل فیض جب کور کمانڈر پشاور تھے اس وقت بھی رابطوں کا سلسلہ برقرار تھا۔بعض اوقات یہ ہوتا تھاکہ خیبرپختونخوا کے سینئر ترین لوگ پشاور سے بنی گالہ پیغام لے کر آتے تھے۔ان کا تعلق اب تک نہیں ٹوٹا تھا وہ موجود تھاحتیٰ کہ عمران خان کے ساتھ بھی تعلق موجود تھا۔ان تک بھی پوری پیغام رسانی ہوتی تھی ۔ ان تک جنرل فیض کی طرف سے ان پٹ بھی جاتا تھا۔ ان کی جو آرمی کی ہینڈلنگ ہے کہ آرمی کو کس طرح ڈیل کرنا ہے اور ہمارا بیانیہ کیا ہونا چاہئے۔اس میں بھی ان کا کافی ان پٹ تھاجس کی بنیاد پر عمران خان اپنا پورا بیانیہ کرتے تھے۔
اس میں صرف جنرل فیض ہی نہیں تھے اور بھی لوگ تھے ۔جنرل فیض سب میں نمایاں بھی تھے ان کا ایک لیڈ رول بھی تھا۔ ان کو بار بار وارننگ بھی دی گئی تھی۔کچھ لوگ درمیان میں اس چیز کو روکنے کی بھی کوشش کرتے تھے کہ چیزیں اس شدت تک نہ جائیں جہاں کورٹ مارشل ہو۔
ا ن کے اختلافات دشمنی کے سطح پر بھی تھے کافی شدید اختلافات تھے۔ جب نوبت یہاں تک آجائے کہ میں ہوں یا یہ ہے ۔اس کے باوجود کورٹ مارشل کا فیصلہ کرنا بہت بڑا فیصلہ ہے ۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹریٹ سے جو چیزیں ملی ہیں ان کے کمپیوٹر اور فون بھی گئے ہیں ۔ان سے میں جو ریکارڈ نکالا ہے اس کے بعد یہ ایک ٹریگر تھا کہ اب بہت ہوگئی ہے اب کیا جائے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار منیب فاروق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب جنرل عاصم منیر کی تقرری ہورہی تھی اس وقت ایک بہت بڑی لیول کی سازش یا سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ میرا تجزیہ نہیں تھا یہ خبر تھی میں نے اس خبر میں لکھا بھی تھابہت سی مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے بہت ساری انفارمیشن ہونے کے باوجود آپ بہت ساری باتیں نہیں کرپاتے۔
جنرل فیض حمید اس سارے پروسس میں بڑے متحرک تھے۔ جنرل باجوہ کی بھی آشیرباد انہیں حاصل تھی۔انہوں نے پوری ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے آرمی چیف نہ بن سکیں۔جن امکانات کا میں نے ذکر کیا اور وہ جو اسٹوری تھی اب چوں کہ وقت گزر گیا ہے میں محتاط طریقے سے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ طاقتور لوگوں کی ایک بیٹھک تھی جس کے اندر گفتگو کی گئی تھی۔
جنرل باجوہ ان دنوں میں جو کچھ کررہے تھے اس کابھی بڑا واضح ریفرنس تھا۔ اس کے اندر ڈسکشن کی گئی کہ کسی طرح سے ہم نے آؤٹ ڈو کرنا ہے نمبر ون جو جنرل ہیں جنرل عاصم منیرکوشش کرنی ہے انہیں آرمی چیف نہیں بننے دینا۔اس بات کے امکان بھی ذکر کیا گیا کہ اگر وہ آرمی چیف بن گئے اور جنتے دور جنرل فیض اور جنرل باجوہ چلے گئے ہیں ۔ تو یہ امکان رول آؤٹ نہیں کیا جاسکتاکہ جنرل فیض حمید کوفیلڈ کورٹ مارشل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔یہ اس وقت ایک خبر تھی اور جتنے محتاط انداز میں اس کو میں کور کرسکتا تھامیں نے اس کو لکھا۔
پاکستانی فوج میں ایک سوچ بن رہی تھی ۔باجوہ اصرار کررہے تھے کہ جنرل فیض کا نام ڈراپ کردیتا ہوں تو آپ جنرل عاصم منیر کو نہ بنائیں آپ کسی تیسرے شخص کو بنا دیں جو بھی اس وقت لسٹ میں تھے لیکن جنرل عاصم منیر کو نہ بنائیں۔یہ بات طاقتور لوگوں کے ہڈل کے اندر کی تھی اگر جنرل عاصم منیر پاکستان کے آرمی چیف بن گئے تو اتنا واضح اور کلیئر ثبوت موجود ہے اس سازش کا کہ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
اس کا جو سیاسی زاویہ تھااس کا براہ راست گٹھ جوڑ پاکستان کی فوج کے پاس یہ شواہد موجود ہیں ۔اس کا براہ راست گٹھ جوڑجنرل فیض حمیداور عمران خان کی جماعت کے اندرسے نکلتا ہے۔
پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی بھی اسی کے اندر کی گئی اور اسی کے زمرے میں بھی وہ آتی ہے ۔
تاثر یہ ملتا ہے کہ جنرل فیض حمید کا پی ٹی آئی کے بہت سے لیڈران سے براہ راست رابطہ تھا۔9 مئی کا تعلق عمران خان سے2022ء کے آخر سے جوڑا جارہا ہے ۔جنرل فیض حمید پر معاملہ رک نہیں جاتا عمران خان سے بھی جوڑا جاتا ہے۔