کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان “میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار،اعزاز سید نے کہا کہ ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کے حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ عمران خان کی سہولت کاری کرتے رہے ہیں، معاملات صرف سابق ڈی جی آئی ایس تک نہیں رکیں گے، اکتوبر تک مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی، رہنما مسلم لیگ ن ، رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 9مئی کے ماسٹر مائنڈ بانی پی ٹی آئی ہی ہیں ، تحقیقات جاری ہیں ، ملوث افراد کیخلاف ایکشن ہوگا ، انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی پوزیشن پر رہنے والے ریٹائرڈ آفیسر کے خلاف اتنا بڑا ایکشن لیا گیا۔ جب تک چیزیں ثابت نہ ہو ایسا قدم نہیں اٹھایا جاتا۔جب قدم اٹھایا گیا ہے تو جو لوگ ان کے ساتھ اس عمل کا حصہ رہے ہیں ا ن کے خلاف بھی ایکشن احاطہ کرے گا۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ جب محمد اکرم کا تبادلہ کیا گیا تو عمران خان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ ان کو لاہور سے ٹرانسفر کرکے واپس راولپنڈی لایا گیاپھر وہ لاپتہ ہوگئے۔قانونی طور پر ان کو گرفتار نہیں کیا گیاکیوں کہ ان کی گرفتاری کہیں ریکارڈ پر نہیں لائی گئی۔ان کی فیملی لاہور ہائی کورٹ رالپنڈی بینچ میں گئی ہے۔بینچ کی طرف سے متعلقہ پولیس افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ20 اگست تک انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔سابق آئی جی جیل خانہ جات شاہد سلیم بیگ2022ء میں ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔ اس وقت تک عمران خان جیل نہیں گئے تھے۔ شاہد سلیم بیگ کی تحویل میں متعدد وزائے اعظم رہے ہیں ۔وہ بڑے ذمہ دار افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ان پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں رہا۔بطور جیل افسروہ بڑے سخت ہیں ان کے نظم و ضبط کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ان پر ابھی تک کوئی چارج نہیں کیا گیا ان کو لے جایا گیا ہے۔وقت آنے پر پتہ چلے گا کہ ان پر کیا الزامات ہیں۔ پہلی دفعہ ہم نے دیکھا کہ ویٹرنز سیاسی بیانئے کو فروغ دینے میں متحرک نظر آئے۔کچھ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے بیانئے کو فروغ دیا۔اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو یہ چیلنج ہے کہ ویٹرنز جب متحرک ہوتے ہیں توڈسپلن کو کچھ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ جب آپ ویٹرنز کو کنٹرول کرتے ہیں تو پیغام پی ٹی آئی کو بھی جاتا ہے۔بعض ججز اور میڈیا کے افرادجو ان تمام معاملات سے جڑے ہوئے تھے۔رہنما مسلم لیگ ن ، رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل ایک سینئر افسرجیل خانہ جات کو بھی تحویل میں لیا گیا ہے۔جب وہ یونیفارم میں تھے دھرنا ہوتا تھا اس وقت بھی یہی بات ہوتی تھی کہ فلاں صاحب اس کے پیچھے ہیں۔9 مئی واقعات کے بعد یہ بات فضاؤں میں تھی اور لوگوں کے تبصروں میں تھی کہ اس کے پیچھے فلاں صاحب کا ہاتھ تھا۔اُس وقت ثبوت کسی کے پاس نہیں تھا، صرف باتیں ہورہی تھیں۔ہاؤسنگ سوسائٹی والے معاملے پر بھی فیض حمید کا نام لیا جارہا تھا۔ان کے ملوث ہونے سے متعلق اس وقت بھی کسی کو شک نہیں تھا۔اگر پوسٹ ریٹائرمنٹ انکوائری ہورہی ہے تو 9 مئی کا واقعہ تو پوسٹ ریٹائرمنٹ میں آتا ہے۔ 9 مئی واقعات کے ماسٹر مائنڈ بانی پی ٹی آئی تھے انہوں نے ہی سب کیا۔بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا مجھے گرفتار کیا گیا تو ایسا ہوگا۔بیک وقت اندرونی اور بیرونی قوتیں اس مقصد کے لئے کیوں شامل نہیں ہوسکتیں ۔تحقیقات اب جاری ہیں جو لوگ ملوث ہوں گے ا ن کے خلاف ایکشن ہوگا۔آرمی کمانڈ کی تعیناتی سے متعلق طریقہ کار با عزت اور آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔اس میں اگر تھوڑا بہت جھول ہو تو اسے ڈسکس ہیں کیا جانا چاہئے۔ان لوگوں کا انفرادی کردار تھا انہوں نے اگر کچھ ایسی چیزیں کی ہیں جو نہ ان کا منصب ان کو اجازت دیتا تھانہ اس منصب کے شایان شان تھی ۔خواجہ آصف سے سوال کیا گیا ہوگا تو انہوں نے اس کا جواب دے دیا۔میں تعیناتی کے عمل کو اس طرح سے ڈسکس کرنے سے متفق نہیں ہوں۔کمانڈ کا میرٹ ہر چیز سے بالاتر ہونا چاہئے یہ عمل آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔اس کمانڈ کی بڑی اہمیت ہے لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوتا ہے۔میں کبھی جنرل اعجاز سے نہیں ملا۔سوشل میڈیا پر جن سرگرمیوں کو ڈیجیٹل دہشت گردی کا نام دیا گیا ہے انہوں نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ہر بندے کی زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے۔اس سے عام آدمی کیا ادارے محفوظ نہیں ہیں۔اتنے بڑے گند کو صاف کرنے اور روکنے کے لئے دو چار دن کی پریشانی یا تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے تو اس کی قیمت کے ہم پلہ نہیں ہے۔فائر وال کو نصب کرنے کے عمل سے اگر پوری ریاست کو نجات مل جائے تو یہ کوئی بڑا نقصان نہیں۔