• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحت مند معاشرے کے قیام کےلئے منشیات سے پاک معاشرہ ضروری ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں منشیات کا استعمال 22 فیصد بڑھا اور سب سے زیادہ اضافہ گزشتہ سات سال کے دوران دیکھنے میں آیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نشہ کرنے کے عادی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو عالمِ انسانیت کےلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

آج ہمارے معاشرے کےحالات ایسے ہیں جیسے بظاہر دروازے کی لکڑی اپنے رنگ و روغن کے ساتھ خوب صورت نظر آ رہی ہے ،مگر دیمک نے اسے اندر سے کھا کر کھوکھلا کر دیا ہے، اسے جب بھی جھٹکا لگے تو وہ بھوسے کی مانند نیچے آگرے گا، بالکل اسی طرح ہمارا معاشرہ بظاہر خوب صورت چمکتا دمکتا تو نظر آ رہا ہے، مگر یہ اندر سے اخلاقی بے راہ روی، بے حیائی، عیاشی، جھوٹ فراڈ، زنا، چوری حسد بغض بد دیانتی کا تو ویسے ہی شکار ہے لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو نوجوان نسل میں نشہ آور اشیاءکا استعمال ہے۔ جو بتدریج بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، جس نے بہت سے نوجوانوں کو اس کا عادی بنا کرتباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

ملک و قوم کا مستقبل‘ ہمارے نوجوان منشیات اور جرائم کی دلدل میں دھنس رہے ہیں اور ریاستی ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک نشہ باز کو تو منشیات بقدرِ ضرورت میسر آجاتی ہے، مگر ریاستی ادارے منشیات فروشوں کا کھوج لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔ 

نشے میں دھت ایک نوجوان کے والدین نے تین سے چارمرتبہ بحالی سینٹر میں اس کامکمل علاج کروایا لیکن باہر آتے ہی وہ دوبارہ اس لت میں مبتلا ہوگیا۔ اس کا جگر آدھے سے زیادہ ختم ہو چکا تھا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، اب وہ دار فانی سے کوچ کرگیا۔ 

یہ ایک نوجوان کی بابت نہیں بلکہ وطن عزیز کے ہر شہر اور ہر قصبے کے کئی نوجوان اس لت میں مبتلا ہیں جو ہمیں فٹ پاتھوں ، چوک، چوراہوں پر، شہر کی سنسان گلیوں میں مدہوش پڑے نظر آتے ہیں، جب کہ مختلف تعلیمی اداروں میں نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے آئس، شیشہ وغیرہ کا استعمال کرنے کی کئی خبریں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ 

یہ نوجوان اس نہج تک کیسے پہنچے ؟ ان کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ؟ منشیات کی روک تھام کے لیے حکومت پاکستان اور سول سوسائٹی کیا کردار ادا کر رہی ہے ؟اس حوالے سے کوئی موثر اقدامات سامنے نہیں آئے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 75 لاکھ سے زیادہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں، ان میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔

اس کے پھیلاؤ میں مافیا کا کردار نظر آتاہے،جو نوجوان لڑکوں نشہ کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں اور ان کو نشہ آور اشیاء دینے کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسالیتے ہیں، پھر ان کے ذریعے مزید نوجوان اسی لت میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 

اس طرح اس مافیا کی دکان چمکتی رہتی ہےاور یہ اپنا کنٹرول اور نیٹ ورک مضبوط کر لیتے ہیں، اس کے بعد ان کا اگلا ہدف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ نوجوان بچے ، بچیاں اپنے والدین کی آنکھوں میں سجے خواب پورے کرنے کے لیے، علم کی شمع روشن کرنے کے لیےنکلے تھےجو ، ملک و ملت کا روشن مستقبل تھے۔ 

مافیا کے کنٹرول میں چلے جاتے ہیں اور ایک ناکارہ و لاغر کردار بن کر رہ جاتے ہیں۔ منشیات کے سودا گر نوجوان نسل کی صلاحیتوں کے قاتل ہیں ۔ وہ اُن کی رگو ں میں اندھیرا اتار کرلاکھوں نوجوانوں کا مستقبل تباہ اور برباد کر رہے ہیں۔

نوجوان اپنے والدین سے اس بات کو پو شیدہ رکھتے ہیں لیکن ان کی گرتی ہوئی حالت راز فاش کر دیتی ہے لیکن اُس وقت تک پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ ماہرِ نفسیات کے مطابق ’’آج کل جو کیسز سامنے آ رہے ہیں ان میں طالبات، بھی شامل ہیں، ان کے گھر والوں کو پتا تک نہیں ہوتا کہ وہ کرتی کیا ہیں، ان میں کرسٹل، شیشہ، الکوحل کے علاوہ پین کلر کا نشہ بھی عام ہیں۔‘‘

نوجوان دوستو! اگر آپ میں سے جو کوئی بھی نشے کے عادی ہو چکے ہیں، واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں ، اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔ اپنی مدد کے لیے اپنے والدین ، بہن بھائیوں کو آگاہ کیجیے۔ ان دوستوں کو چھوڑ دیجیے جنہوں نے آپ کو اس دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ یہ دوست نما دشمن ہیں، جنہوں نے آپ کی دنیا آپ کا مستقبل برباد کر دیا۔

ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو اس گھناؤنے فعل سے پاک کرنے کے لیے بھر پور کردار ادا کریں۔ انفرادی طور پر تو ہر شخص کی ذمہ داری ایک دائرے تک محدود رہتی ہے لیکن عمومی طور پر سول سوسائٹی کی انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والے اداروں، تنظیموں اور حکومت پہ فرض ہے کہ وہ فی الفور اقدامات کریں کہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں سے مافیا کے اڈے ختم کیے جائیں اور ہر شہر میں بحالی سینٹر تعمیر کیے جائیں، نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لیے حکومت اپنی سرپرستی میں نئے آئیڈیاز ، نئے پروجیکٹس متعارف کراکے دوران علاج بھی نوجوانوںکو سیکھنے کے مواقع فراہم کرے، تاکہ معاشرے میں خوش حالی، امن، ترقی اور بیداری پیدا ہو۔