• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر شان الحق حقی

ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب۔ علی حسن ساجد

ڈاکٹر شان الحق حقی معروف ادیب، شاعرتھے، انہوں نے اپنی تحریروں سے اردو زبان اور ادب کو مالا مال کیا۔ وہ کثیر اللسان محقق اور دانشور تھے، انہیں بیک وقت اردو، انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، ترکی، فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا، ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ”جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری“ ہے۔ 

انہوں نے بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے لکھا ، ابتداء بچوں کے لئے لکھنے سے کی ۔ بچوں کے لئے نظم و نثر لکھنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ لکھنے کا انداز اتنا پیارا کہ بڑی بڑی باتیں بھی آسانی سے سمجھ میں آجاتیں۔

شان الحق حقی15 ستمبر 1917ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی اور علیگڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی، 1955 ء میں لندن سے ذرائع ابلاغ کا کورس کیا۔ مقتدرہ قومی زبان کے لئے بھی انہوں نے گرانقدر علمی خدمات انجام دیں۔

بچوں کے لئے ان کی کتابیں پھول کھلے ہیں رنگ برنگے، سہانے ترانے مقبول ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ”ان کی نظموں میں وہ سب کچھ ہے جو بچے پسند کرتے ہیں‘‘۔ ان کی تحریر کردہ دل چسپ کہانیاں بھی پڑھنے والوں کو ملیں گی، مشاہدات اور معلومات بھی ان کی نظموں میں توتو، میں میں، لڑائی جھگڑا ، چیخ پکار، شور شرابا ، ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی ملے گی۔ انہیں پڑھ کر مزا آتا ہے، بچو! آپ بھی پڑھیں اپنے امی ابو کو بھی سنایئے، سب کو یقیناََ پسندآئیں گی۔

شان الحق حقی اپنی زندگی کے آخری ایام میں مستقل طور پر کینیڈا چلے گئے تھے 11 اکتوبر 2005 ء کو کینیڈا میں ہی ان کا انتقال ہوا اور وہیں آسودہ خاک ہیں، آج آپ ایک ادیب ایک کہانی میں حقی صاحب کی لکھی ہوئی کہانی’’ چچا ولن‘‘ پڑھیں۔

ایک دن چچا میرے کمرے میں آئے اور لگے بلا وارنٹ تلاشی لینے۔ نام تو ان کا ولی اللہ تھا، مگر سب چچا ولن کہتے تھے۔

میں نے کہا،’’ چچا خیر تو ہے، کیا چاہئے‘‘؟

بولے،’’ ڈکشنری‘‘

میں نے پوچھا،’’ کون سی‘‘؟

فرمایا،’’ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ڈکشنری کون سی ہوتی ہے؟ ارے بھئی الفاظ کی۔‘‘

میں نے کہا، ’’آپ نے بجا فرمایا، مگر کون سی زبان کی‘‘؟

چچا بولے، ’’پھر تم نے بے کار سوال کیا، بھئی ڈکشنری ہوگی تو انگریزی کی ہوگی اردو یا فارسی، عربی کی چاہئے ہوتی تو لغت کہتا، فرہنگ کہتا، قاموس کہتا۔‘‘

میں نے کہا، بالکل درست۔ دیکھ لیں الماری کے اس خانے میں سب ڈکشنریاں ہی رکھی ہوئی ہیں‘‘۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھے آواز دی۔ ’’بھئی وہ لفظ جو مجھے چاہئے، وہ تو اس میں ہے ہی نہیں۔‘‘

میں نے دیکھا کہ چچا فرانسیسی ڈکشنری لئے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا کہ،’’ حضرت یہ انگریزی کی ڈکشنری کہاں ہے؟

بولے’’، نہیں یہ دیکھو اس میں انگریزی ہی لکھی ہوئی ہیں‘‘۔

میں نے کہا، معنی انگریزی میں لکھے ہیں، مگر ہے تو فرانسیسی کی ڈکشنری۔‘‘

بولے، سب یہاں سے وہاں تک انگریزی حروف ہیں۔ میں نے عرض کیا،’’ جی ہاں، انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانیں رومن حروف میں لکھی جاتی ہیں۔ ہمارا انگریزی سے زیادہ تعلق ہے، اس لئے ہم انہیں انگریزی حروف کہہ دیتے ہیں۔ آپ لفظ تو بتایئے جو آپ ڈھونڈ رہےہیں ‘‘۔

چچا نے کہا،’’ سی او ٹی کوٹ COT کے معنی دیکھنا چاہتا تھا‘‘۔ مجھے ہنسی آگئی۔ کہنے لگے، ’’کیوں، کیا میں نے کوئی بے وقوفی کی بات کی ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’ توبہ توبہ، اللہ نہ کرے، میں تو یوں ہنس دیا کہ یہ لفظ دراصل ہماری اپنی زبان کا ہے‘‘۔ انہیں یقین نہ آیا تو میں نے ایک ڈکشنری کھول کر دکھائی جس میں لکھا تھا کہ یہ لفظ کہاں سے آیا۔ انگریزی میں کھاٹ سے کوٹ ہوگیا ہے، معنی ہلکا پلنگ یا چار پائی۔

چچا پھٹی پھٹی آنکھوں سے پڑھتے رہے۔ کہنے لگے، اچھا تو یہ ہمارے ہاں سے دولت ہی سمیٹ کر نہیں لے گئے، الفاظ بھی لے گئے ہیں‘‘۔ مجھے پھر ہنسی آئی۔ میں نے کہا،’’ حضرت! لے ہی نہیں گئے، بہت سے الفاظ دے بھی گئے ہیں جو ہم دن رات بولتے رہتے ہیں۔ 

بعض ایسے لفظ بھی جن کی جگہ ہمارے اپنے الفاظ موجود ہیں۔ کوئی پوچھے کہ چچا، مامو، عمو کی جگہ ”انکل“ کہنے کی کیا تک ہے۔ ابا، ابو، ابی، بابا کو چھوڑ کر ”ڈیڈی“ یا اماں، امی، بے بے کی جگہ ”ممی“ ”مما“ …… ہے نا فضول بات؟‘‘

چچا بولے، ’’یہ لوگ انگریز بننے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ میری باتوں پر ہنستے ہو، تمہیں اس پر ہنسی نہیں آتی؟‘‘ میں نے کہا،’’ بلکہ رونا آتا ہے۔ ویسے تو الفاظ کا لین دین قوموں کے درمیان ہوتا ہی آیا ہے، لیکن اپنے ہر لفظ کی جگہ انگریزی کا لفظ بولنے لگیں تو آگے چل کر دنیا کیا سمجھے گی، یہی کہ ہم ایسے گئے گزرے لوگ ہیں کہ ہمارے پاس معمولی باتوں کے لئے بھی اپنے الفاظ نہیں۔

ہاں نئی چیزوں کے نام، سائنسی الفاظ، کل پرزوں کے نام جو ہیں وہ رہیں، اگرچہ ان میں سے بھی بعض کے لئے ہم اپنے ہی ہلکے پھلکے موزوں، مناسب الفاظ بنا سکتے ہیں۔ سب قومیں یہی کرتی ہیں۔ اردو میں تو الفاظ بنانے کی بڑی آسانیاں ہیں اور یہ دوسری زبانوں کے الفاظ بھی جوں کے توں لے سکتی ہے، کیوں کہ اس میں سب حروف اور آوازیں موجود ہیں جو دوسری زبانوں میں اکٹھی نہیں ملیں گی۔

چچا بولے، ’’ہاں انگریزی میں تو ’ت‘ اور ’د‘ تک کی آواز نہیں۔ ملت کو ملٹ، پاکستان کو پاکسٹان، زندہ باد کو ذنڈہ بیڈ ہی لکھ سکتے ہیں۔ مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے کہا،’’ چچا ولی اللہ کھان آپ کا کھیال باکل ڈرسٹ ہے۔‘‘

چچا بولے، ’’تم بالکل غلط انگریزی بول رہے ہو۔ انگریزی میں خان ہے نہ کھان، صرف کان ہے۔ دو چشمی ھ سے جو آوازیں ہم بناتے ہیں بھ پھ کھ گھ وغیرہ وہ انگریزی میں نہیں ہوتیں اور دیکھئے ان سے کیسے بولتے ہوئے سے لفظ بنتے ہیں۔ 

خاص طور پر وہ جو آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں جیسے بھن بھن، جھن جھن، چھن چھن، کھنک دھمک، ٹھائیں ٹھائیں، دھوم دھڑکا، ڈھول ڈمکا۔ چھوم چھنا نانا چھن کہیے تو گھنگرو بجتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ آوازیں جو ہماری زبان میں ہیں، فارسی، عربی، انگریزی اور دوسری زبانوں میں نہیں۔