• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کی اقتداء (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

تاہم اگر امام سجدہ تو کرتا ہے، مگر صحیح ہیئت میں قعدے پر نہیں بیٹھ سکتا، تو اگرچہ اس کی اقتداء میں نماز جائز ہے، مگر اسے مستقل امام بنانے سے احتراز کیاجائے ،تو بہتر ہے، کیونکہ اس سے مقتدی اضطراب اور تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 

امام احمد رضاقادری ؒ سے سوال کیا گیا:’’ ایک شخص عالم ہے ،یعنی علم فقہ وحدیث بخوبی جانتا ہے، مگر عالم موصوف بائیں پیر سے مجبور ہے ،جسے لنگڑا کہتے ہیں ،زمین میں پیر مذکور کا فقط انگشت لگاسکتے ہیں اور دہنا پیر درست ہے قیام، رکوع، سجود بخوبی کرسکتے ہیں، یہ عالم پانچ وقتی نماز کی امامت کرسکتے ہیں، اگرچہ عالم دیگر موجود ہو یا نہیں؟‘‘۔

آپ جواب میں لکھتے ہیں: ’’ صورت مستفسرہ میں ایسے شخص کی امامت بلاشبہ جائز ہے، پھر اگر وہی عالم ہے تو زیادہ مستحق ہے ،اُس کے ہوتے جاہل کی تقدیم ہرگز نہ چاہیے اوراگر دوسرا عالم بھی موجود ہے، جب بھی اس کی امامت میں حرج نہیں، مگر بہتر وہ دوسرا ہے ،یہ سب اس صورت میں کہ دونوں شخص شرائط صحت وجواز امامت کے جامع ہوں، صحیح خواں، صحیح الطہارۃ، سنّی صحیح العقیدہ غیر فاسق معلن ورنہ جو جامع شرائط ہوگا ،وہی امام ہوگا، درمختار میں ہے: ترجمہ:’’ مختار قول پر سیدھا کھڑے ہونے والے کی نماز کبڑے شخص کے پیچھے درست ہے ،اگرچہ اس کا کبڑا پن رکوع کی حد تک ہو ،اسی طرح لنگڑے کاحکم ہے، البتہ دوسرے آدمی کی امامت اَفضل واَولیٰ ہے، (فتاویٰ رضویہ ،جلد6،ص:554)‘‘، (واللہ اعلم بالصواب )