مستحکم اور پائیدار معاشرے کی تعمیر و ترقی میں صحت مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن دیکھا جائے تو ہمارے اردگرد پریشانیوں میں گھرے بے شمار نوجوان نظر آئیں گے جو تمام تر مسائل کا جواں مردی سے مقابلہ تو کررہے ہیں لیکن کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جن پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ، ان کی وجہ سے وہ ایسی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں جہاں سے واپسی تقریباً ناممکن ہے۔ اس حقیقت سے ان کے والدین اور اساتذہ بھی آگاہ ہیں لیکن نوجوانوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
اکثریت پان، گٹکا، مین پوری اور سگریٹ جیسے زہر کا استعمال کھلے عام کرتی نظر آتی ہے اگر یہ کام غیر تعلیم یافتہ نوجوان کریں تو کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے کہ ان میں شعور و آگہی کا فقدان ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مضر صحت اشیاء کا بے دریغ استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔ اسکول، کالج، جامعات اور دفاتر وغیرہ میں ہر جگہ گٹکا، پان اور مختلف اقسام کی چھالیہ وغیرہ کا استعمال کرنے والے نوجوانوں کی اکثریت کہیں زیادہ ہے جو جانتے بوجھتے خود کو موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں۔
انہیں یہ احساس تک نہیں وہ کتنی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ مضر صحت اشیاء کا استعمال کرنے والے نوجوان اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے کتنے اہل ہیں وہ خود تو اپنے آپ کو سنبھال نہیں پارہے، ایسے میں کیا ملک کی ترقی کے لیے اور بہتر مستقبل کے لیے ان پر انحصار کیا جاسکتا ہے؟
جس طرح مضر صحت اشیاء کاکثرت سے استعمال کر رہے ہیں اس سے جبڑے، حلق، پھیپھڑوں اور آنتوں کا کینسر بڑھ رہا ہے کیونکہ ان میں موجود زہریلے کیمیائی اجزا ءا انتہائی خطرناک ہیں۔ نوجوان سب جانتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں اپنی صحت کے دشمن بن گئے ہیں۔ کوئی گلی، محلہ، پارک اور تعلیمی ادارے ایسے نظر نہیں آتے جہاں کم عمر لڑکے اور نوجوان سرعام سگریٹ نوشی یا گٹکا، چھالیہ وغیرہ کھاتے نظر نہ آرہے ہوں۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ سگریٹ نوشی کا نقصان صرف پینے والوں کو ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا دھواں آس پاس کے افراد کے لیے بھی مضر ہوتا ہے، جبکہ اس کے اثرات کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ لیکن نسل نو اسے تفریح، فیشن اور فخر کا سامان سمجھتی ہے ۔سگریٹ نوشی اور تمباکو کی دوسری اشیاء کے استعمال کے ساتھ دیگر منشیات کا بھی آزادانہ استعمال کررہے۔ عالمی ادارہ صحت نےمنشیات کو انسانی زندگی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔
پروفیسر نک زوار رائل آسٹریلین کالج آف جنرل پریکٹیشنرز ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے سربراہ ہیں، ان کے ایک بیان کے مطابق ’’ زیادہ تر ویپنگ پروڈکٹس میں نیکوٹین ہوتی ہے، چاہے ان پر نہ ہونےکا لیبل لگایا لیاگیا ہو۔ان کے استعمال سے پھیپھڑوں اور نظام قلب پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔سب سے اہم خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اعصابی نظام متاثر ہوجاتا ہے۔‘‘
نوجوان اس کے دلکش ذائقوں کی وجہ سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ سگریٹ نوشی کی طرح نقصان دہ نہیں۔ انہیں یہ احساس نہیں کہ بخارات میں موجود نکوٹین اور کیمیکل ان کے نشوونما پاتے ہوئے جسموں اور دماغوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ویپنگ کرنے سےجسم میں کیلشم، پروٹین اور نمکیات ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ غالباََ یہی وجہ ہے کہ نسلِ نو سست، تھکی ہوئی نظر آتی ہے۔
ان کے صحت مند جسم اور مثبت سوچ پر منفی رجحانات غالب ہورہے ہیں اور سوشل لائف تباہ ہورہی ہے ۔ اس میں فارمل ڈی ہائیڈ، ایکرولین اور وولاٹائل آرگینک کمپاؤنڈ (وی او سی) پائے جاتے ہیں جس سے دل کی بیماریوں اور بلڈ پریشر کا خطرہ لا حق ہوتا ہے۔ قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ و یپس کا رجحان نسلِ نو کوایک نئی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ نوجوان نسل کو اس استعمال سے گریز کرنا چاہئے اور صحت مند طرز زندگی اپنانا چاہیے۔ اس کی روک تھام کے لیے والدین اور اساتذہ کے ساتھ حکام کو بھی اپناکردار ادا کرنا ہوگا، تب ہی بات بنے گی۔