اسلام آباد (محمد صالح ظافر/خصوصی تجزیہ نگار) حکومت نے تحریک انصاف کو وفاقی دارالحکومت کے نواح میں مویشی منڈی کے میدان میں جلسے کی اجازت دیکر جو غیر اعلانیہ مقاصد متعین کئے تھے ان میں سے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوگئی ہے جبکہ انتشار کا شکار تحریک انصاف میں اپنے جلسے کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے اس جلسے کے حوالے سے غیر قانونی اجتماع اور اسے خطاب کرنے کی پاداش میں خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ملتوی کردیا ہے اس بارے فیصلہ آج (پیر) کرلیا جائے گا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں دیگر اشتعال انگیز باتوں کے علاوہ فوج کے بارے غیرذمہ دارانہ گفتگو کی تھی۔ حد درجہ قابل اعتماد ذرائع سے جنگ/دی نیوز کو بتایا ہے کہ جلسے میں کی گئی تمام تقاریر کا بغور جائزہ لیا جائے گا جسکے بعد خلاف قانون بات کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں کس کس دفعہ کے تحت ماخوز کیا جائے گا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جلسے کی اجازت دیکر اس امر کا سراغ لگالیا گیا ہے کہ تحریک انصاف میں وہ دم خم باقی نہیں رہا جس کا خطرہ وہ گزشتہ سال تک کرتی آئی تھی اس سے تحریک انصاف کی قیادت میں پیدا شدہ پھوٹ کا بھی پتہ چل گیا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ جلسے کے بعد جس میں تحریک انصاف نے انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ متعدد شرائط کی خلاف ورزی کی ہے اب اسے آئندہ کسی جلسے کی اجازت دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے یوں تحریک انصاف نے اپنے آئندہ جلسوں کیلئے راہ بند کرلی ہے۔
سرکاری تخمینوں کے مطابق جلسے کے شرکا کی تعداد گیارہ ہزار کے لگ بھگ تھی تحریک انصاف شرکا کی تعداد اس نے دس گنا ہونے کی دعویدار ہے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما رکن قومی اسمبلی شیر افضل خان مروت نے دعویٰ کیا ہے کہ 9مئی کے بعد انکی جماعت کا یہ سب سے بڑا جلسہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلسے میں کارکنوں کی طرف سے اپنی پذیرائی کیلئے بے حد شکر گزار ہیں جو پورا وقت مروت مروت کے نعرے لگاتے رہے۔
شیر افضل مروت نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کی تقریر کے دوران اس وقت انکی مدد کی جب کارکنوں نے انکے خلاف نعرے لگانا شروع کردیئے تو شیر افضل مروت نے ہاتھ کے اشارے میں ان کارکنوں کو باز رہنے کیلئے کہا۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ جلسے کے منتظامین سے بھی سنگین غلطیاں ہوئیں اگر وہ جلسہ گاہ تک رسائی کیلئے بہتر انتظام کرتے تو شرکا کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی تھی۔
انہوں نے خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ گنڈا پور کے اس فیصلے کو درست تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس میں وہ مختلف علاقوں سے کارکنوں کو صوابی میں یکجا کرکے جلسہ گاہ تک آئے ان کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ وزیراعلیٰ خود تاخیر کے بغیر وقت پر پہنچتے اور دوسرے علاقوں سے آنے والے قافلوں کو آزادانہ پہنچنے دیتے۔ انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ گنڈا پور کی غلط حکمت عملی کے باہر موٹر وے نصف شب تک جام رہی اور اس پر سفر کرنے والوں کو بھی تکالیف کا سامنا رہا۔
جنگ/دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد پنجاب کی طر ف مارچ کرینگے اور کم از کم ساٹھ ہزار کارکنوں کو اپنے جلو میں لیکر خیبرپختونخواہ سے نکلیں گے۔