اسلام آباد (رپورٹ:رانامسعود حسین) آئینی ترمیمی سے پہلے سپریم کورٹ کے حکم نے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر دیں ہیں، سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے وضاحتی حکم نامے میں کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر الیکشن کمیشن نے فوری عمل درآمد نہ کیا تو نتائج ہونگے، فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، انتخابی نشان سے محرومی کسی سیاسی جماعت کے حقوق کو ختم نہیں کرسکتی ہے، پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اسکے ارکان کے سرٹیفکیٹس کو تسلیم نہ کرنا سراسر غلط ہے، الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر کو چیئرمین تسلیم کرچکا ہے، 12جولائی کے مختصر فیصلہ میں کوئی ابہام نہیں تھا، الیکشن کمیشن نے اسے پیچیدہ بنایا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) اراکین کی بنیاد پر تخلیق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن /پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائرکی گئی سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں کے خلاف جاری 12 جولائی کے مختصر فیصلہ سے متعلق ابہام کی درستگی کیلئے دائر کی گئی الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی متفرق درخواستوں کی ان چیمبر سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ عدالت کے آٹھ ججوں کی جانب سے جاری مختصر اکثریتی فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیز پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، عدالت کے 12جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں بلکہ مختصر فیصلہ بہت واضح ہے، جسے الیکشن کمیشن نے غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنادیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کنفیوژن پیدا کرنے کی کوششوں کوسخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو اس فیصلے پر فوری طور پر عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس فیصلے پرعدم عملدرآمد کی صورت میں اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، الیکشن کمیشن بیرسٹرگوہرعلی خان کوتحریک انصاف کا چیئرمین تسلیم کرچکا ہے، پارٹی چیئرمین تسلیم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اپنے موقف سے پھر نہیں سکتا ہے، جسٹس سید منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عرفان سعادت خان کی جانب سے الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی متفرق درخواستوں کی ان چیمبر سماعت سے متعلق ہفتہ کے روز چار صفحات پر مشتمل وضاحتی حکم نامہ جسٹس منصور شاہ نے قلمبند کیا ہے ،جس میں عدالت نے قراردیاہے کہ یہ فیصلہ بالکل واضح ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی وضاحت کیلئے دائر کی گئی متفرق درخواست محض ایک تاخیری حربہ ہے،جسکے ذریعے وہ عدالتی فیصلے پر عملدر آمد کے راستہ میں رکاٹ پیدا کررہا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تو خود بھی بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کا چیئرمین تسلیم کیا ہے جبکہ بیرسٹر گوہر علی خان کی پی ٹی آئی کے پارٹی چیئرمین جبکہ عمر ایوب خان کی بطور جنرل سیکرٹری پوزیشن کو نہ صرف ہم(اکثریتی آٹھ ججوں) نے قبول کرتے ہوئے اس پر بھروسہ کیا ہے بلکہ تین اقلیتی ججوں، چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ ،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی تسلیم کیا ہے اور انکی جانب سے جاری کردہ پارٹی سرٹیفکیٹ (پارٹی ٹکٹ)کی درستگی کو بھی قبول کیا ہے،اس درخواست کے ذریعے الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا ہے ،فیصلہ کے مطابق الیکشن کمیشن تسلیم کر چکا ہے کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جسکے بعد اس کی جانب سے تحریک انصاف کے ارکان کے سرٹیفکیٹس کو تسلیم نہ کرنا سراسر غلط ہے،عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا اور الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹس جمع کروانے والے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلیز پاکستان تحریک انصاف کے اراکین تصور ہونگے اورپی ٹی آئی کی صوبائی و قومی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹیوں کا حصہ تصور ہونگے، عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ حالیہ الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو بھی پی ٹی آئی ارکان کی حد تک غیر موثر قرار دیا جاتا ہے ،کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کر دیا تھا کہ سرٹیفکیٹ جمع کرانے اور پارٹی تصدیق کے بعد وہ اراکین پی ٹی آئی کے کامیاب اراکین تصور ہونگےاوربعد میں آنے والا کوئی ایکٹ بھی انکی حیثیت ختم نہیں کر سکتا،عدالت نے قرار دیا ہے کہ اراکین کا معاملہ ’’پاسٹ اینڈ کلوز‘‘ ٹرانزیکشن تصور ہوگا،اسکے بعد تمام اراکین ئینی و قانونی تقاضوں کیلئے پی ٹی آئی کے رکن ہی تصور ہونگے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کنفیوژن پیدا کرنے کی کوششوں کوسخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے اورواضح کیا جاتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کر تے ہوئے قراردیاہے کہ انتخابی نشان سے محرومی کسی سیاسی جماعت کے حقوق کو ختم نہیں کرسکتی ہے، پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے،جس نے عام انتخابات میں نشستیں بھی حاصل کی ہیں۔