اسلام آباد (نمائندہ جنگ)نئی آئینی عدالت سپریم کورٹ کے ماتحت ہوگی یا خودمختار ؟ راولپنڈی میں حکام، وزیر اطلاعات، ایک سینیٹر اور کابینہ کے ارکان سمیت متعدد ذرائع سے بات چیت کے بعد آئینی ترمیم کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس بہت کم معلومات ہیں۔
اہم مسئلہ آئینی عدالت کو سپریم کورٹ سے الگ کرنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی عدالت اختیارات کے لحاظ سے سپریم کورٹ کے برابر ہوگی یا اس کے ماتحت کام کرے گی؟یا دونوں آزاد خودمختار ہو ں گی یا دونوں علیحدہ علیحدہ حیثیت میں کام کرے گی؟اشارتاً یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئی عدالت کو سپریم کورٹ کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔
ایک اور اہم سوال نئی عدالت کے عملے کے بارے میں ہے۔ کیا آئینی عدالت کا عملہ سپریم کورٹ کے موجودہ ججز، نئے مقرر ہونے والے ججز یا پھر ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ہوگا؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ ججز ایک آپشن ہوسکتے ہیں۔ اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آیا قاضی فائز عیسیٰ نئی عدالت کی سربراہی کر سکتے ہیں لیکن یہ باتیں فی الحال غیر مصدقہ ہیں۔
اس بارے میں بھی خدشات موجود ہیں کہ آیا ترمیم کے ذریعے حکومت ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کا ارادہ رکھتی ہے، اور کیا یہی پنشن بچانے کیلئے بیوروکریسی وسیع تر تناظر میں متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ توسیع کا اطلاق صرف ججز پر ہوگا، اور اس اقدام کے نتیجے میں مالی اصلاحات کیلئے کیے جانے والے اقدامات میں ابہام نظر آتا ہے ۔