اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ میں ’پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرریوں‘ کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے، کرائے کے صحافی گالیاں دینا شروع ہوجائینگے ،عدالت نے اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر محمد سرور کی تقرری غیر قانونی قرار ددیتے ہوئے موجودہ ریکٹر ثمینہ ملک کو اس عہدہ پر رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑ دیا۔ بعدازاں کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی ۔ دوران سماعت وفاقی سیکرٹری تعلیم نے اسلامی یونیورسٹی کا آڈیٹر جنرل کے ذریعے آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کروائی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مقدمہ کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایک یونیورسٹی نے ہم پر انگلی اٹھائی ہے،جس پر اسلامی یونیورسٹی کی ریکٹر ثمینہ ملک کے وکیل ریحان الدین گولڑہ روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ انکی موکلہ خرابی صحت کے سبب عدالت میں نہیں آسکی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف ہوں تو شک ہی ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہم خاموش ہیں؟ اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ آپ بدتمیزی کریں ،انکی ہدایت پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے ریحان الدین گولڑہ ایڈوکیٹ کو روسٹرم سے زبردستی ہٹا دیا۔